اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اکتوبر 2025ء) بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے حال ہی میں وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں اپنے تربیتی مرکز میں ''ڈرون وارفیئر اسکول‘‘ کا آغاز کیا ہے، جہاں عملہ اپنے زیرِ تربیت اہلکاروں کو مستقبل کے ''ڈرون کمانڈوز‘‘ قرار دے رہا ہے۔
بی ایس ایف کے ڈرون وارفیئر اسکول سے وابستہ شمشیر سنگھ نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہم اپنے ڈرون کمانڈوز کو اس انداز میں تربیت دے رہے ہیں کہ وہ ڈرون کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہوئے نگرانی، گشت، دشمن ڈرونز کو ناکارہ بنانے اور ضرورت پڑنے پر بم گرانے کے قابل ہوں۔
‘‘نئی دہلی کی جانب سے بغیر پائلٹ فضائی گاڑیوں (UAVs) پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا ایک اور مظہر یہ ہے کہ بھارت جلد ہی ''کولڈ اسٹارٹ‘‘ کے نام سے ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈرون جنگی مشقیں شروع کرنے جا رہا ہے، جن میں بحریہ، بری فوج اور فضائیہ شامل ہوں گی۔
(جاری ہے)
یہ مشقیں اسی ہفتے منعقد کی جا رہی ہیں اور انہیں دفاعی صنعت کے ماہرین اور محققین بغور مانیٹر کریں گے۔
بھارت
کے انٹیگریٹڈ ڈیفنس اسٹاف کے نائب سربراہ ایئر مارشل راکیش سنہا کے مطابق ، ''ہم اس مشق کے دوران اپنے کچھ ڈرونز اور کاؤنٹر-ڈرون سسٹمز کی جانچ کریں گے تاکہ ہمارا فضائی دفاعی نظام اور کاؤنٹر-UAS مکمل طور پر مضبوط ہو سکے۔‘‘یہ پیش رفت بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی اگست میں کی گئی اس یقین دہانی کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں انہوں نے بھارت اور اس کے اہم تنصیبات کے تحفظ کے لیے ایک کثیر سطحی، مربوط فضائی دفاعی نظام بنانے کا وعدہ کیا تھا۔
یہ منصوبہ ''سدرشن چکر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے 2035 تک مکمل کیا جانا ہے۔ یہ بھارت کا مقامی فضائی دفاعی نظام ہوگا، جو اسرائیل کے ''آئرن ڈوم‘‘ کے مساوی تصور کیا جا رہا ہے۔
آپریشن سندور کے اسباق: بھارت کی دفاعی حکمتِ عملی میں تبدیلی
بھارت
کی دفاعی حکمتِ عملی میں نظر آنے والی یہ تبدیلی حالیہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ جھڑپوں کے دوران پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔مئی میں بھارتی فضائیہ نے ''آپریشن سندور‘‘ کے نام سے میزائل حملے کیے، جن کا ہدف وہ مبینہ دہشت گرد کیمپ تھے جو نئی دہلی کے مطابقپاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں موجود تھے۔
ان حملوں میں بھارت نے اسرائیلی ساختہ اور مقامی ڈرونز کا استعمال کیا، جن کے ذریعے طویل فاصلے پر درست اور فوری حملے کیے گئے۔
جوابی کارروائی میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے ترک ساختہ ''آسیس گارڈ سونگر‘‘ اور YIHA-III ڈرونز کی ایک سیریز تعینات کی۔
اگرچہ اس جھڑپ کی تفصیلات خفیہ رکھی گئی ہیں، بھارتی حکام نے اس دوران ''نقصانات‘‘ کا اعتراف کیا ہے۔ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرنے والے حکام اور ماہرین کے مطابق اس تنازعے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ روایتی سرحدی انتظامات اب کم لاگت، تیزی سے بڑھنے ڈرون خطرات کے مقابلے کے لیے ناکافی ہیں، اور ان کے لیے نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
بھارت کو نئی ڈرون حکمتِ عملی کی ضرورت
گزشتہ ایک سال کے دوران بھارت کو پاکستان اور چین کی جانب سے سرحد پار ڈرونز کی دراندازی، ہتھیاروں کی ترسیل اور نگرانی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔
سابق لیفٹیننٹ جنرل دیپندر سنگھ ہودا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''ڈرون جیسے بغیر پائلٹ نظام میدانِ جنگ میں انقلابی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
یوکرین کی جنگ اس کی واضح مثال ہے اور آپریشن سندور جنوبی ایشیا میں اس کے ممکنہ اثرات کی ایک جھلک ہے۔‘‘ہودا نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ بھارت میں ڈرون وارفیئر کو وہ توجہ دی جا رہی ہے جس کا یہ مستحق ہے ، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت کو ڈرون کے استعمال سے متعلق ایک نئی، جامع حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''ایسی حکمتِ عملی ضروری ہے جو مطلوبہ اقسام کے ڈرونز، ان کے استعمال کے طریقے، انسان اور مشین کے اشتراک، اور صنعتی صلاحیت کی ترقی جیسے پہلوؤں کا احاطہ کرے تاکہ بھارتی فوج ڈرونز کی مکمل صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکے۔‘‘
فرنٹ لائن پر ''ڈرون خواندگی‘‘ ضروری
جبکہ پس منظر میں ڈرون انقلاب تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، بھارت اپنی سکڑتی ہوئی فضائیہ کو مضبوط بنانے کے لیے اربوں روپے نئے فوجی طیاروں پر خرچ کر رہا ہے۔
ایک نجی دفاعی کمپنی رُدرم ڈائنامکس کے منیجنگ ڈائریکٹر، کونارک رائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ تنازعات کے تناظر میں ڈرونز کی طرف یہ رجحان زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''آذربائیجان کی ناگورنو-کاراباخ جنگ سے لے کر روس-یوکرین تنازع تک، ڈرونز نے جنگ کے انداز اور رفتار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یوکرین میں کم قیمت تجارتی ڈرونز اور فوری طور پر تیار کردہ فرسٹ پرسن ویو (FPV) سسٹمز کو نگرانی، درست حملوں اور توپ خانے کی رہنمائی کے لیے تباہ کن انداز میں استعمال کیا گیا ہے۔
‘‘رائے، جو دفاعی اداروں کو ڈرونز فراہم کرتے ہیں، نے مزید بتایا، ''ڈرون کے ذریعے پہنچائے گئے ہتھیاروں کو دشمن کی رسد کو مفلوج کرنے اور ان کے حوصلے کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
بھارتی
فوج کے ریٹائرڈ جنرل سید عطا حسنین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ڈرون وارفیئر اسکول کا افتتاح اور تینوں افواج کی مشترکہ ''کولڈ اسٹارٹ‘‘ مشقیں جدید فوجی سوچ میں ایک اہم ارتقاء کی نمائندگی کرتی ہیں۔انہوں نے کہا، ''آج کے دور میں ڈرونز صرف فضاء میں نگرانی کرنے والی آنکھیں نہیں، بلکہ یہ جنگ کی ایک نئی اور متنوع شکل بن چکے ہیں، جو نگرانی اور حملے کی صلاحیتوں کو اسٹریٹیجک سطح سے لے کر سب ٹیکٹیکل سطح تک مؤثر انداز میں بڑھاتے ہیں۔‘‘
ادارت: شکور رحیم