نان پٹرولیم کیمیکلز پر ڈی پی ایل کا اطلاق، برآمدی صنعتوں کی بندش کا خطرہ

کیمیکلز کی درآمدات معطل،خام مال کی قلت کا خدشہ،برآمدی آرڈرز منسوخی سے معیشت کو دھچکا لگے گا، سلیم ولی محمد

پیر 18 اگست 2025 17:12

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اگست2025ء)پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائز مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی سی ڈی ایم ای) نے وفاقی وزیر توانائی (پٹرولیم ڈویژن) علی پرویز ملک سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر صنعتی کیمیکلز کو غیر ضروری طور پر ڈسٹری بیوشن پرمٹ لائسنس (ڈی پی ایل) کے دائرہ کار میں شامل کرنے کا فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو ملک بھر کی صنعتیں بند ہونے کے دہانے پر پہنچ سکتی ہیں،ڈی پی ایل کے غیر متعلقہ کیمیکلز پر اطلاق سے ملک میں صنعتی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

پی سی ڈی ایم اے چیئرمین سلیم ولی محمد نے وفاقی وزیر توانائی (پٹرولیم ڈویژن) کو ارسال کردہ خط میں کہا کہ متعلقہ قانون دراصل پٹرول پمپس اور پٹرولیم مصنوعات کی ریگولیشن کے لیے بنایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اب اس کا اطلاق ان صنعتی کیمیکلز پر بھی کیا جا رہا ہے جو صرف صنعتوں میں بطور خام مال استعمال ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ کیمیکل ٹیکسٹائل، پلاسٹک، چمڑا، دواسازی، کھاد، کاسمیٹکس سمیت دیگر کئی شعبوں کی بنیادی ضرورت ہیں ۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ڈی پی ایل کی غلط تشریح کے باعث کیمیکل کی درآمد تقریباً بند ہو چکی ہے۔ انڈینٹرز نے بیرونی سپلائرز کے تحفظ کے لیے نئے آرڈرز دینا بند کر دیے ہیں جبکہ پی سی ڈی ایم اے کے ممبرز درآمدکنندگان نے بھی درآمدات معطل کر دی ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ موجودہ عبوری چھوٹ 24 اگست 2025 کو ختم ہونے کے بعد کسٹمز کلیئرنس نہیں ملے گی۔

چیئرمین پی سی ڈی ایم اے نے خبردار کیا کہ اگر یہ مسئلہ فوری طور پر حل نہ ہوا تو پاکستان کی صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہو سکتی ہیں خاص طور پر وہ صنعتیں جو کیمیکل سپلائی پر مسلسل انحصار کرتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر کیمیکل برآمدی صنعتوں کے لیے ناگزیر ہیں اور ان کی فراہمی میں رکاوٹ سے نہ صرف پیداوار میں تاخیر ہو گی بلکہ برآمدی آرڈرز منسوخ ہونے اور زرمبادلہ کی آمدنی میں نمایاں کمی کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔سلیم ولی محمد نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ نان پٹرولیم اور نان ہائیڈروکاربن صنعتی کیمیکلز کو ڈی پی ایل قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور موجودہ عبوری استثنیٰ کی مدت میں توسیع کی جائے تاکہ معاملے کا باضابطہ حل نکالاجا سکے۔