سوئی ناردرن گیس کمپنی کے پاور کمپنیوں کے ذمہ 50 ارب روپے بجلی صارفین سے وصول کرنے کا انکشاف

وزیراعظم نے گیس بلنگ تنازع کی تحقیقات کا حکم دے دیا‘اوگرا اور ایس این جی پی ایل کے ایک دوسرے پر قانونی غلطیوں کے الزامات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 20 اگست 2025 13:48

سوئی ناردرن گیس کمپنی کے  پاور کمپنیوں کے ذمہ 50 ارب روپے بجلی صارفین ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 اگست ۔2025 ) سوئی ناردرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل)کی جانب سے پاور کمپنیوں کے واجب الاادا50 ارب روپے بجلی صارفین سے وصول کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے نجی ٹی وی کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے بااثر صارف گروپوں اور گیس یوٹیلیٹی سیکٹر کے درمیان 50 ارب روپے کے گیس بلنگ تنازع کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق یہ تحقیقات سابق وفاقی سیکرٹری شاہد خان کی سربراہی میں ہوں گی جو انڈسٹریل اور سی این جی صارفین کی جانب سے شکایات موصول ہونے کے بعد کی جا رہی ہیں ان صارفین کو 2015 سے واجب الادا پرانے گیس واجبات کے اچانک بل موصول ہوئے تھے ذرائع نے تصدیق کی کہ وزیر اعظم نے معاملے کی چھان بین کے لیے ایک خصوصی انکوائری کمیٹی قائم کر دی ہے، تنازع سوئی ناردرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل)سے متعلق ہے جس نے اپریل 2015 سے جون 2022 تک کے عرصے کے لیے اوگرا کے اپ ڈیٹ شدہ نوٹیفکیشنز کی بنیاد پر نظرثانی شدہ بل جاری کیے ہیں.

اوگرا کے ان نوٹیفکیشنز کے مطابق صنعتی شعبے پر 14 ارب 40 کروڑ روپے واجب الادا ہیں، پاور سیکٹر پر 40 ارب روپے جو بالآخر بجلی صارفین کو ادا کرنے ہوں گے، سی این جی کے شعبے پر 3 ارب 80 کروڑ روپے، فرٹیلائزر سیکٹر پر 2 ارب 40 کروڑ روپے واجب الادا ہیں مجموعی طور پر تقریبا 59 ارب 80 کروڑ روپے واجب الادا ہیں جن میں سے 51 ارب 30 کروڑ روپے فرق کے گیس چارجز اور تقریبا 8 ارب روپے جنرل سیلز ٹیکس(جی ایس ٹی)پر مشتمل ہیں، اس کے علاوہ تاخیر سے ادائیگی کے چارجز بھی شامل ہیں یہ معاملہ خصوصا صنعتی شعبے میں تشویش کا باعث بنا ہے، جس کا دعوی ہے کہ ماضی میں انہوں نے ان ادائیگیوں سے بچنے کے لیے عدالتی اسٹے آرڈرز حاصل کیے تھے تقریبا 2 ہزار 950 صنعتی اور ایک ہزار 200 سی این جی صارفین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ان اضافی چارجز کو چیلنج کرنے کے لیے مضبوط قانونی جواز موجود ہے.

ان گروپوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہائی میں انہوں نے یا تو برآمدات کیں یا مصنوعات فروخت کیں اور ان کے پاس اضافی بلنگ کی لاگت صارفین کو منتقل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا یہ تنازع اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا، جب سامنے آیا کہ حکومت کے خلاف 76 ارب روپے کی سبسڈی کا دعوی بھی زیرالتوا ہے، ایکسپورٹ انڈسٹریز اور فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے ری گیسفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی قیمتوں میں فرق کو حکومت سبسڈی کی شکل میں ادا کرتی ہے مگر یہ واجبات صارفین سے بلنگ کی صورت میں وصول کیے گئے ہیں.

اوگرا اور ایس این جی پی ایل، دونوں ایک دوسرے کو قانونی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ایسا این جی پی ایل کے ذرائع کے مطابق اوگرا نے دسمبر 2024 میں اپریل 2015 سے جون 2022 تک کے لیے آر ایل این جی کی حتمی قیمتیں جاری کیں لیکن بعد میں پی ایس او اور پی ایل ایل کی درخواست پر ان نوٹیفکیشنز کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا. بعد ازاں اوگرا نے 28 مارچ 2025 کو دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کیے جو 84 ماہ کے عرصے کا احاطہ کرتے ہیں ایس این جی پی ایل نے گیس سیلز ایگریمنٹ (جی ایس اے)کی شق 3 کے تحت آر ایل این جی صارفین کو قیمتوں میں فرق کا چارج کیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ اوگرا کو گزشتہ 10 سال پرانی آر ایل این جی قیمتوں پر نظرثانی نہیں کرنی چاہیے تھی اس کے بجائے، انہیں صرف مستقبل کی بنیاد پر پروویژنل اور اصل قیمتوں کے فرق کی ریکوری کرنی چاہیے تھی، جیسا فرٹیلائزر سیکٹر نے کیا.

ذرائع نے خبردار کیا کہ ماضی کے بلز کی بنیاد پر ریکوری کرنا تقریبا ناممکن ہو سکتا ہے کیوں کہ صارفین عدالتی حکم امتناعی لے سکتے ہیں، اس سے ریگولیٹڈ گیس سیکٹر پر اعتماد کو نقصان پہنچے گا اور غیر ریگولیٹڈ نجی اداروں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے ریگولیٹر کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اوگرا نے ماہانہ بنیادوں پر آر ایل این جی کی عبوری قیمتیں مقرر کی تھیں، جو اب حتمی کر دی گئی ہیں انہوں نے وضاحت کی کہ گیس سیلز ایگریمنٹ اور ایس این جی پی ایل کنزیومر سروس مینول کے مطابق عبوری اور حتمی قیمتوں کے درمیان فرق کو ایک ساتھ ایک بل میں وصول کرنے کے بجائے مستقبل کے بلز میں وصول کیا جا سکتا ہے.