غزہ جنگ بندی: مصائب زدہ لوگوں کی امید حقیقت میں بدلنے کی ضرورت، یو این

یو این ہفتہ 11 اکتوبر 2025 03:15

غزہ جنگ بندی: مصائب زدہ لوگوں کی امید حقیقت میں بدلنے کی ضرورت، یو این

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی خبریں غزہ کے بچوں کے لیے امید لائی ہیں جس کا طویل عرصہ سے بے تابی سے انتظار تھا اور اب فوری اقدامات کے ذریعے ان کی تکالیف کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

ادارے کے ترجمان ریکارڈو پیریز نے جنیوا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےغزہ تنازع کے تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔

موجودہ حالات میں بچوں بالخصوص نومولود اور شیر خوار بچوں کی اموات میں بڑے پیمانے پر اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ غذائی قلت اور مناسب خوراک کے مسلسل فقدان کے باعث ان کا مدافعتی نظام پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔

Tweet URL

شدید سردی کا موسم بھی بچوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ سال کئی نومولود بچے جسمانی درجہ حرارت میں کمی کے باعث جاں بحق ہو گئے تھے۔ یونیسف جولائی سے اس صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس نے ایک سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے لاکھوں گرم کپڑے اور کمبل فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یونیسف کے پاس ہزاروں زخمی بچوں کے لیے وہیل چیئر اور بیساکھیوں سمیت دیگر ضروری سامان بھی موجود ہے جو اجازت ملتے ہی غزہ میں پہنچا دیا جائے گا۔

علاوہ ازیں، ادارہ علاقے میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب کے انتظام اور کچرا اٹھانے کے نظام کی بحالی میں مدد دینے کے لیے بھی تیار ہے۔

غذائیت اور علاج کی ضرورت

ترجمان نے کہا ہے کہ یونیسف کے پاس پانچ سال سے کم عمر 50 ہزار بچوں اور حاملہ و دودھ پلانے والی 60 ہزار ماؤں کی غذائی حالت کو بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ لیکن اس سے کام لینے کے لیے غزہ میں غذائیت کے سامان اور علاج کی سہولیات کی عام دستیابی ضروری ہے۔

حقیقی جنگ بندی کو پائیدار ہونا چاہیے اور اس کا احترام یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب بچوں کے حقوق کی پاسداری اور تمام راستوں سے انسانی امداد کی فراہمی بھی ہے۔ غزہ کے بچوں کو صرف خوراک ہی نہیں بلکہ سکولوں کی بحالی، کھیلنے کی جگہوں اور ناقابل بیان صدمے سے نکلنے کے لیے وقت بھی درکار ہے۔

'انروا' کا کردار لازم

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کی میڈیا ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما نے اردن کے دارالحکومت عمان سے پریس کانفرنس میں شرکت کی اور بتایا کہ ادارے کے پاس اردن اور مصر میں چھ ہزار ٹرکوں کے برابر امدادی سامان موجود ہے جسے فوری طور پر غزہ بھیجا جا سکتا ہے لیکن تاحال اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے اداروں بشمول 'انروا' کو امدادی کام کی اجازت دی جائے کیونکہ غزہ میں ادارے کے بغیر انسانی امداد کی فراہمی کا تصور بھی محال ہے۔

ادارہ غزہ کے 660,000 لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم بحال کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو دو سال سے سکول نہیں جا سکے اور ان میں سے نصف جنگ سے پہلے 'انروا'کے سکولوں میں پڑھتے تھے۔ 'انروا' غزہ میں سب سے بڑا امدادی ادارہ ہے جس کے پاس تقریباً 12 ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔ اسے مقامی لوگوں کا اعتماد بھی حاصل ہے اور یہ اس کی افادیت کا ایسا پہلو ہے جسے عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔