اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اگست 2025ء) کراچ میں شدید بارش کے نتیجے میں شہری ناصرف گھنٹوں سڑکوں پر پھنسے رہے بلکہ مختلف علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس بھی بری طرح متاثر ہو گئی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس اور فیس بُک پر کئی صارفین اپنا تجربہ شیئر کرتے رہے۔ ایک ویڈیو میں ایک شہری پانی کے ریلے سے خود کو بچاتے بچاتےاپنی موٹر بائیک کو بھی پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دیِکھا گیا۔
اُدھر ایک رکشہ ڈرائیور اپنے رکشہ سمیت پانی کے ریلے میں بہتے ہوئے دِکھائی دیا۔ سڑکوں، گلیوں پر پانی کی سطح اتنی اونچی تھی کہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے قاصر تھے۔ایک ایکس صارف فاطمہ نے لکھا کہ یہ حال ملک کو چلانے والے شہر کا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اور صارف انصاری نے ٹوئیٹ میں لکھا ''لاوارث کراچی۔
(جاری ہے)
‘‘
کراچی شہر میں حالیہ بارش کے نتیجے میں اب تک درجن سے زیادہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
ایک طرف پورے ملک میں اس وقت موسمیاتی تبدیلی پر بحث جاری ہے، مگر کراچی کا المیہ یہ ہے کہ یہ صوبہ سندھ کا وہ واحد شہر ہے جہاں عام دنوں میں کچھ منٹ کی بارش بھی زندگی مفلوج کردیتی ہے۔
ایسا کیوں ہے، ناقص منصوبہ بندی؟
ایک معروف سماجی کارکن حفیظ بلوچ نے کہا کہ کراچی کی منصوبہ بندی بد سے بد تر ہوچکی ہے اور ان کے بقول حالیہ بارش غیر معمولی نہیں تھی۔
''نکاسی آب کا معاملہ آج سے نہیں دہائیوں سے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جہاں کھلے نالے تھے ان پر تعمیرات بن چکی ہیں۔ اور جہاں ندی تھی اسے گٹر بنادیا گیا ہے، جیسے کہ لیاری ندی۔‘‘حفیظ بلوچ نے کہا کہ 1980 سے لے کر 1990 کی دہائی تک کراچی میں چار موسم ہوا کرتے تھے۔ ''درمیانہ سا موسم ہوا کرتا تھا۔ گرمی کی اس قدر شدت نہیں تھی جتنی کے اب ہے۔
بارشوں سے پتا چل جاتا تھا کہ موسم تبدیل ہونے والا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''اب یہ عالم ہے کہ ملیر ندی کی آبی گزرگاہ یا رِور بیڈ پر ایکسپریس وے بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس سے آپ کو ترجیحات کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔‘‘کیرتھر پہاڑی سلسلہ
حفیظ بلوچ نے کہا کہ کیرتھر پہاڑی سلسلہ، جسے ایک زمانے تک کوہِ باران بھی کہا جاتا تھا، اس کا کراچی کے موسم پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔
کیرتھر پہاڑی سلسلے کو 1974 میں نیشنل پارک میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ کراچی کے شمال میں 128 کلومیٹر دور واقع اس پہاڑی سلسلے پر اب تعمیراتی کام شروع ہونے جارہا ہے۔ ان کے بقول،''کیرتھر پہاڑی سلسلہ ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے نہیں بلکہ ماحولیاتی نظام کو محفوظ رکھنے کے لیے سنبھالا جانا چاہیے۔ یہ تمام تر سیاسی فیصلے ہیں جن کو میں اور آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘کراچی شہر کی نفسیات
حفیظ بلوچ نے کہا کہ کیرتھر میں متواتر جنگلات کو کاٹا گیا، جس کا منفی اثر کراچی پر پڑا۔ وہ کہتے ہیں، ''کراچی شہر اور اس کی زمین کی نفسیات کو سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔‘‘
دوسری جانب، شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن اپنی کتاب ''انڈرسٹینڈنگ کراچی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کراچی کی اہمیت یہاں قائم بندر گاہ کی وجہ سے رہی ہے۔
لیکن آنے والی دہائیوں میں بڑھتی آبادی اور بے ربط انتظامی نظام کی وجہ سے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا۔سیاسی تقرریاں اور تبادلے
عارف حسن لکھتے ہیں کہ سرکاری ملازمت، کونٹریکٹ، بزنس پرمِٹ، زمین پر تعمیراتی کام کے کاغذات، سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر دیے گئے۔ مثال کے طور پر کراچی واٹر بورڈ میں 14,500 ملازم رکھے گئے جبکہ ضرورت صرف 6000 کی تھی۔
عارف حسن لکھتے ہیں کہ 1987 کے بعد، خاص طور سے 1997 کے دوران، منصوبہ بندی اور ترقیاتی معاملات پر کام کرنے والے ادارے شہر کی سیاسی طور پر بٹے ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر پائے۔ جس کے نتیجے میں بیرونِ ملک سے آنے والی فرمز پر انحصار بہت بڑھ گیا۔ انہوں نے لکھا، ''یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کا مستقبل ایجنٹ اور کانٹریکٹر لابی کے ہاتھوں میں ہے۔
‘‘حفیظ بلوچ نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ایک زمانے میں گاؤں گوٹھ ہوا کرتے تھے جہاں باغات اور کھیت تھے۔''ان درختوں اور کھیتوں کو کاٹ کر، آبائی لوگوں کو بھگا کر، ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ پروین رحمان شہری منصوبہ بندی پر کام کرتی تھیں اور گوٹھ اور گاؤں بچانے کے لیے سرکردہ تھیں۔ ان کو مار دیا گیا۔ اس شہر کے مسائل کسی حد تک موسمیاتی لیکن زیادہ حد تک انسانوں کے پیدا کردہ ہیں۔ حفیظ بلوچ کے بقول، ''ان مسائل کا حل حکمرانوں کے ہی پاس ہے۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ