غزہ: ٹانگ سے محروم شخص نے خود ہی مصنوعی عضو تیار کر لیا

یو این جمعرات 21 اگست 2025 20:00

غزہ: ٹانگ سے محروم شخص نے خود ہی مصنوعی عضو تیار کر لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اگست 2025ء) چند ماہ قبل غزہ کے ابراہیم عبدالنبی اپنے گھرانے کے لیے امدادی خوراک لینے نکلے تو راستے میں فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ گولی لگنے سے ان کی ایک ٹانگ بری طرح زخمی ہو گئی جسے ان کی زندگی بچانے کے لیے کاٹنا پڑا۔ اب وہ مصنوعی ٹانگ کے سہارے چلتے اور ایک مرتبہ پھر خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔

زخمی ہونے کے بعد انہوں نے ڈیڑھ ماہ رفح کے علاقے العالم میں واقع ہلال احمر کے ہسپتال میں گزارا اور ٹانگ کاٹے جانے کا زخم بھرنے کے بعد انہیں واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ جنوبی غزہ کے علاقے المواصی میں یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جس روز وہ زخمی ہوئے اس دن انہیں اطلاع ملی تھی کہ غزہ امدادی فاؤنڈیشن شناختی کارڈ دکھانے والوں میں خوراک تقسیم کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

یہ سن کر وہ امدادی مرکز کی جانب روانہ ہو گئے جہاں انہیں گولی لگ گئی۔

زخمی ہونے کے بعد وہ ڈیڑھ گھنٹہ تک ایک ہی جگہ پڑے رہے اور کوئی ان کی مدد کو نہ آیا کیونکہ سبھی کو اپنے بچوں کے لیے کھانا حاصل کرنے کی فکر تھی۔

اسی دوران بعض لوگ ان کی مدد کو آئے اور انہیں ہسپتال پہنچایا جہاں تقریباً بارہ مرتبہ ان کی سرجری ہوئی۔ اس دوران وہ غذائی قلت اور خون کی شدید کمی کا شکار رہے۔

ان کی ٹانگ میں بار بار انفیکشن پھیل جانے کے باعث ڈاکٹروں کو اسے کاٹنا پڑا۔

UN News
جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے ابراہیم عبدالنبی خیمے میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔

معذوری اور مجبوری

جب بھوک سے تڑپتے ان کے بچے کھانا لانے کا تقاضا کرنے لگے تو ابراہیم کے لیے ٹانگ کھونے کا درد اور بھی بڑھ گیا۔ باامر مجبوری انہوں نے اپنے ہاتھ سے ہی لکڑی کی مصنوعی ٹانگ تیار کی تاکہ بیوی بچوں کے لیے کم از کم آٹے کا تھیلا اور پانی لانے کے قابل ہو سکیں۔ ان کی کوشش کامیاب رہی اور اب وہ بقدر ضرورت چل پھر لیتے ہیں۔

ابراہیم کہتے ہیں کہ مشکل کے باوجود وہ مصنوعی ٹانگ ضرور استعمال کریں گے۔ اس وقت غزہ میں لوگوں کے پاس نہ تو دوائیں ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کی کوئی طبی سہولت دستیاب ہے۔ ان کا عزم ہے کہ جب تک جسم نے اجازت دی وہ اپنے گھرانے کی خاطر محنت مشقت جاری رکھیں گے۔

ان کی مصنوعی ٹانگ زیادہ مضبوط نہیں ہے اور اس سے وہ اپنی معذوری پر بمشکل 20 فیصد ہی قابو پاتے ہیں۔

تاہم وہ خوش ہیں کہ کم از کم اس کی بدولت ان کے لیے خوراک اور پانی کا حصول ممکن ہو گیا ہے۔

UN News
ابراہیم عبدالنبی اپنی بیوی کے سہارے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بازو ٹانگوں سے محروم بچے

غزہ میں جتنی بڑی تعداد میں بچوں کے جسمانی اعضا کاٹے جا رہے ہیں اس کی حالیہ عرصہ میں کہیں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ان میں بعض بچوں کا علاج الشفا میڈیکل کمپلیکس میں جاری ہے۔ ان میں شہد نامی بچی بھی شامل ہیں جس کا بایاں بازو اسرائیلی فضائی حملے میں ضائع ہو گیا تھا۔

شہد نے یو این نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ وہ اپنے گھر کے سامنے کھڑی تھیں کہ ایک فضائی حملے میں بم کا ٹکڑا لگنے سے ان کا بازو کٹ گیا۔

شہد کو امید ہے کہ ڈاکٹر انہیں مصنوعی بازو لگا دیں گے۔

ان سے قریب ہی ایک بستر پر مریم نامی ننھی بچی شدید تکلیف میں رو رہی تھی۔ اس بچی کی ایک ٹانگ کاٹی جا چکی ہے جبکہ دوسری پر شدید زخم ہیں۔ اس کی نانی نے بتایا کہ اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں ان کا گھر تباہ ہو گیا جس میں موجود مریم کو بری طرح زخم آئے جن کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹنا پڑی جبکہ دوسری ٹانگ میں ہڈی جوڑنے کے لیے لوہے کی پلیٹیں لگائی گئی ہیں جو اسے بے حد تکلیف دیتی ہیں۔

UN News
فلسطینی بچی مریم ابو علبہ جس کی دائیں ٹانگ کاٹنی پڑی ہے جبکہ بائیں ٹانگ بھی بری طرح زخمی ہے۔

وہ اپیل کرتی ہیں کہ ان کی نواسی کو مصنوعی ٹانگ لگائی جائے اور دوسری ٹانگ کا علاج کروایا جائے جس کی رگیں بھی کٹ چکی ہیں۔

اسی ہسپتال میں زیرعلاج بچہ محمد حسن بھی اپنی ایک ٹانگ کھو چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ کھانا لینے جا رہا تھا کہ راستے میں میزائل حملہ ہوا۔ اس سے بچنے کے لیے وہ تیزی سے بھاگا مگر اتنی دیر میں میزائل اس کے قریب گرا اور اس کی ایک ٹانگ بری طرح زخمی ہو گئی۔ کسی شخص نے اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں کو اس کی زخمی ٹانگ کاٹنا پڑی۔

غزہ کی یہ کہانیاں دراصل ان گنت معصوم زندگیوں کی چیخیں ہیں جو دنیا کی خاموشی میں دب کر رہ گئی ہیں۔