محنت کشوں کی صحت اور روزگار کو بڑھتی گرمی سے خطرہ، رپورٹ

یو این ہفتہ 23 اگست 2025 07:45

محنت کشوں کی صحت اور روزگار کو بڑھتی گرمی سے خطرہ، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اگست 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے خبردار کیا ہے کہ شدید گرمی دنیا بھر میں محنت کشوں کی صحت اور روزگار کے لیے تیزی سے بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی اور کام کی جگہوں پر گرمی کے شدید اثرات پر دونوں اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں سخت گرمی کی طویل، شدید اور متواتر لہریں جنم لے رہی ہیں۔

زراعت، تعمیرات اور ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ کارکن شدید گرمی کے اثرات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بچوں، معمر افراد اور کم آمدنی والے لوگوں کو اس سے دیگر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرات درپیش ہیں۔

Tweet URL

'ڈبلیو ایچ او' میں فروغ صحت، بیماریوں کی روک تھام اور طبی نگہداشت کے شعبے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل جیریمی فیرر نے کہا ہے کہ شدید گرمی دنیا بھر میں لاکھوں محنت کشوں کی صحت اور روزگار کو منفی طور سے متاثر کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

حالیہ رپورٹ میں زندگیوں کو گرمی سے تحفظ دینے، عدم مساوات میں کمی لانے اور گرم ہوتی دنیا میں مزید مضبوط افرادی قوت کی تعمیر کے لیے قابل عمل اقدامات تجویز کرتی ہے۔

پیداواری صلاحیت کا نقصان

پانچ دہائیوں کی تحقیق کی روشنی میں یہ رپورٹ بڑھتی گرمی سے صحت اور پیداواری صلاحیت کے نقصان کی تفصیلات بھی بتاتی ہے۔

'ڈبلیو ایم او' نے تصدیق کی ہے کہ 2024 اب تک کا گرم ترین سال تھا۔

اس دوران عالمی حدت میں قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سیلسیئس کی شرح سے اضافہ ہوا اور روزانہ درجہ حرارت کا 40 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد کو چھونا معمول بن گیا۔ دنیا کے بعض حصوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیئس سے بھی تجاوز کرتا رہا۔

'ڈبلیو ایم او' کی نائب سیکرٹری جنرل کو بیریٹ نے کہا ہے کہ پیشہ وارانہ زندگی پر گرمی کا دباؤ عالمگیر مسئلہ بن گیا ہے جو اب خط استوا سے قریبی ممالک تک ہی محدود نہیں رہا۔

اسی طرح، محنت کشوں کو شدید گرمی سے تحفظ دینا محض صحت کا لازمہ نہیں بلکہ معاشی ضرورت بھی بن گیا ہے۔

گرمی اور طبی مسائل

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کیسے شدید گرمی دنیا بھر میں کام کو تبدیل کر رہی ہے۔ 20 ڈگری سیلسیئس سے اوپر درجہ حرارت میں ہر ڈگری تبدیلی سے کارکن کی پیداواری صلاحیت میں 2 تا 3 فیصد کمی آ جاتی ہے۔

شدید گرمی سے سرسام، جسم میں پانی کی کمی، گردوں کی خرابی اور عصبی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔

اس وقت دنیا کی تقریباً نصف آبادی بلند درجہ حرارت کے منفی اثرات کا سامنا کر رہی ہے۔

بہتری کے لیے سفارشات

دونوں اداروں نے پیشہ وارانہ زندگی میں گرمی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے صنعتوں اور علاقوں سے مخصوص منصوبوں پر زور دیتے ہوئے درج ذیل اقدامات کے لیے کہا ہے:

  • ادھیڑ عمر اور معمر، طبی مسائل کا شکار اور جسمانی طور پر کمزور کارکنوں کو ترجیحی بنیاد پر گرمی سے تحفظ کی فراہمی۔

  • جسم پر شدید گرمی کے اثرات کو پہچاننے اور اس سے نمٹنے کے لیے طبی عملے، آجروں اور کارکنوں کی تربیت۔
  • گرمی اور صحت سے متعلق حکمت عملی کی تشکیل میں کارکنوں، ان کی تنظیموں اور مقامی حکام کی شمولیت۔
  • پیشہ وارانہ ماحول میں شدید گرمی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر، سستے اور پائیدار اقدامات اور اختراع و نئی ٹیکنالوجی کا استعمال۔

  • اقدامات کو موثر رکھنے کے لیے بہتر درجے کی تحقیق اور نگرانی۔

یہ رہنمائی عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی رپورٹ کے نتائج پر مبنی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2.4 ارب کارکنوں کو شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہر سال لوگوں کو کام کے دوران 22.85 ملین سے زیادہ زخم آتے ہیں۔

اہم سنگ میل

'آئی ایل او' میں پیشہ وارانہ تحفظ و صحت کے شعبے کے سربراہ جوآکم پنٹاڈو نونیز نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ کام کی دنیا میں شدید گرمی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف اجتماعی اقدامات میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

'آئی ایل او' کے مینڈیٹ کے تحت یہ رپورٹ حکومتوں، آجروں اور کارکنوں کو موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے مضبوط اور شواہد پر مبنی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کے دونوں اداروں نے واضح کیا ہے کہ زندگیوں، روزگار اور معیشتوں کو تحفط دینے میں شدید گرمی کے اثرات پر قابو پانا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فوری اور مربوط اقدامات اختیاری نہیں بلکہ لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔