حماس اسرائیل جنگ: ناقابل بیان مصائب کے دوسال، یو این امدادی ادارے

یو این منگل 7 اکتوبر 2025 21:15

حماس اسرائیل جنگ: ناقابل بیان مصائب کے دوسال، یو این امدادی ادارے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 07 اکتوبر 2025ء) غزہ کی جنگ کو تیسرا سال شروع ہونے پر اقوام متحدہ نے حماس کی قید میں یرغمالیوں کی رہائی، فوری جنگ بندی اور فلسطنیوں کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد فراہم کرنے کی اپیل کو دہرایا ہے جبکہ امریکہ کے پیش کردہ امن منصوبے پر متحارب فریقین کے مابین مصر میں بالواسطہ بات چیت جاری ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط اور فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قید کے عرصہ میں ان کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھا جانا چاہیے اور تمام شہریوں کو جنگ سے تحفظ دیا جائے۔

Tweet URL

انہوں نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں ہزاروں فلسطینی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ بھوک، قحط اور نقل مکانی کی اذیتیں جھیل رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اب ان تکالیف کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

جنگ بندی اور انصاف کا مطالبہ

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں نے تباہی، نقل مکانی، بمباری، خوف، موت اور بھوک کے دو طویل سال گزارے ہیں۔

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر تمام یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی، فوری جنگ بندی اور 'انروا' سمیت دیگر اداروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔

فلپ لازارینی نے 7 اکتوبر 2023 کو اور اس کے بعد ڈھائے جانے والے مظالم پر احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس تباہی اور ابتری کو ختم کرنے کا یہی راستہ ہے۔

ہزاروں بچوں کی ہلاکت

7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے دہشت گرد حملوں میں 1,250 سے زیادہ اسرائیلی اور غیر ملکی شہری ہلاک ہوئے جبکہ 250 سے زیادہ لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔

غزہ کے طبی حکام کے مطابق، دو سال سے جاری اس جنگ میں اب تک 66,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ مسلسل بمباری اور پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ غزہ میں ہزاروں بچے ہلاک و زخمی ہوئے ہیں اور شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ غزہ کے ہسپتال اور طبی مراکز مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے ترجمان ریکارڈو پیریز نے کہا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں تقریباً 61,000 بچے ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ بے شمار اپنے والدین اور گھروں سے محروم ہو گئے ہیں جو کہ ناقابل قبول اور بہت بڑی تعداد ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یونیسف کو شمالی غزہ میں بچوں کے لیے وینٹی لیٹر اور انکیوبیٹر لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

انہیں زندہ رہنے کے لیے ان چیزوں کی شدید ضرورت ہے۔ ادارے کے مطابق، غزہ میں اب ہر پانچ میں سے ایک بچہ قبل از وقت پیدا ہو رہا ہے۔ ایسے بیشتر بچے ایسی ماؤں کے ہاں جنم لے رہے ہیں جو دو سال س جاری جنگ میں شدید بھوک اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

امید کی کرن

ریکارڈو پیریز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے پر بات کرتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی بدولت خطے، عام شہریوں اور غزہ کے بچوں کے لیے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے گزشتہ روز کہا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے پیش کیا گیا حالیہ امن منصوبہ امن کی جانب ایک اہم موقع لایا ہے جسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے تاکہ اس المناک تنازع کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

UNICEF video

غذائی قلت سے اموات

عالمی ادارہ صحت 'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، غزہ کے 36 میں سے صرف 14 ہسپتال ہی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں جبکہ شمالی غزہ میں کوئی بھی ہسپتال فعال نہیں رہا۔

جنگ سے پہلے غزہ میں 176 بنیادی طبی مراکز کام کر رہے تھے جن میں سے اب صرف 62 ہی کسی حد تک کارآمد ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے ترجمان کرسچین لنڈمیئر نے بتایا ہے جنوری 2025 سے اب تک غذائی قلت سے متعلقہ 400 اموات کی تصدیق ہو چکی ہے جن میں 101 بچے بھی شامل ہیں جن میں سے 80 کی عمر پانچ سال سے کم تھی۔ گزشتہ دو ماہ میں 10,000 سے زیادہ بچوں میں شدید غذائی قلت کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ تقریباً 2,400 بھوک سے ہلاکت کے دہانے پر ہیں۔

ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ ایسے بچوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے بہت سے خاندان طبی مراکز یا ہسپتالوں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ قحط پہلے صرف غزہ شہر تک محدود تھا لیکن اب جنوبی علاقوں میں بھی پھیل رہا ہے۔

امداد کی محدود رسائی

اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 8,000 سے زیادہ امدادی کارروائیوں کے لیے اسرائیلی فوج سے اجازت طلب کی گئی جن میں سے نصف کو یا تو مسترد کر دیا گیا یا انہیں تاخیر اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسالہ جنگ میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب غزہ میں حسب ضرورت امدادی سامان آیا ہو۔