ْموساد نے دوحہ میں کارروائی سے انکار کیوں کیا قطر حملے میں اس کی غیر موجودگی کی تفصیلات

ہفتہ 13 ستمبر 2025 14:43

تل ابیب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 ستمبر2025ء)اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اس نے قطر کے دار الحکومت دوحہ میں حماس کے اعلی رہنمائوں پر فضائی حملہ کیا ہے تو ایک بات نمایاں تھی کہ موساد ایجنسی اس کارروائی کے پیچھے نہیں تھی۔امریکی اخبار کے مطابق موساد نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی جس کے تحت زمینی ایجنٹوں کو استعمال کر کے حماس رہنماں کو نشانہ بنایا جانا تھا۔

ذرائع کے مطابق موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا نے اس اقدام کی مخالفت کی کیونکہ اس سے قطر کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو سکتے تھے، جو جنگ بندی بات چیت میں اہم ثالث ہے۔ موساد کی ہچکچاہٹ کے باعث اسرائیل نے دوسرا راستہ اپنایا اور پندرہ لڑاکا طیاروں سے دس میزائل داغے۔تاہم حماس کا کہنا تھا کہ اس حملے میں اس کے بڑے رہنما بشمول تنظیم کے نائب سربراہ خلیل الحیہ محفوظ رہے۔

(جاری ہے)

البتہ ان کے چند رشتے دار، معاونین اور ایک قطری افسر ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی حکام نے نتائج پر کھل کر تبصرہ نہیں کیا لیکن اندرونی طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے کہ کارروائی مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر سکی۔یہ بھی غیر واضح ہے کہ اگر زمینی کارروائی کی جاتی تو کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے یا نہیں۔ گزشتہ برس موساد تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو بم دھماکے میں قتل کر چکی ہے۔

مگر اس بار موساد نے قطر میں ایسی کارروائی سے انکار کیا، اس کا موقف تھا کہ قطر ثالثی کے لیے نا گزیر ہے۔کئی اسرائیلی عہدے داروں نے کارروائی کے وقت پر سوال اٹھائے کیونکہ اس دوران حماس رہنما قطر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی تجویز پر غور کر رہے تھے۔ ایک اسرائیلی اہل کار نے کہا ہم ان کو ایک سال یا چار سال بعد بھی مار سکتے ہیں، تو ابھی کیوں ماہرین کے مطابق وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو مذاکرات سے مایوس ہو چکے ہیں اور ممکن ہے کہ انھوں نے یہ حملہ اس لیے کیا تاکہ براہِ راست غزہ پر بڑے زمینی حملے کی طرف بڑھ سکیں۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ڈیوڈ ماکوفسکی کے مطابق موساد قطر کی ثالثی کو اہم سمجھتا ہے، لیکن نیتن یاہو نے اسے بے فائدہ جانا۔اسرائیلی سیکیورٹی اداروں میں اس حملے پر تقسیم بھی سامنے آئی۔ آرمی چیف ایال زامیر اور قیدیوں سے متعلق مذاکرات کے انچارج نیتسان الون نے اس کی مخالفت کی، جبکہ وزیر دفاع یسرائیل کاتز اور وزیر تزویراتی امور رون ڈیرمر نے حمایت کی۔

بتایا گیا کہ الون کو پیر کو ہونے والے اجلاس میں بلایا ہی نہیں گیا تاکہ وہ مخالفت نہ کر سکیں۔اسرائیلی حکام کا کہناتھا کہ حملہ کرنے کا فیصلہ ایک نادر موقع کی وجہ سے کیا گیا کیونکہ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد پہلی بار حماس کے کئی اعلی رہنما ایک جگہ موجود تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیت المقدس میں پیر کے روز ایک فلسطینی حملے میں چھ اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے اور غزہ میں گھات لگا کر چار اسرائیلی فوجیوں کو مار دیا گیا، جس پر فوری رد عمل ضروری سمجھا گیا۔