پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس

ہائر ایجوکیشن کے مختلف اداروں کے پرنسپل صاحبان نے 479 ملین روپے سرکاری خزانے کے بجائے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں رکھے، جو کہ قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے ، پبلک اکائونٹس کمیٹی

جمعرات 18 ستمبر 2025 21:00

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 ستمبر2025ء)بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی غلام دستگیر بادینی، زابد علی ریکی، ولی محمد نورزئی، رحمت صالح بلوچ، صفیہ بی بی، میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر یونس عزیز زہری اور ایم پی اے روی پہوجہ اعزازی طور پر شریک ہوئے۔

اجلاس میں سیکرٹری اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن صالح محمد بلوچ اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ شجاع علی سیکرٹری اسفند یار کاکڑ اور ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ڈپٹی اکاؤنٹنٹ بلوچستان حافظ نورالحق و دیگر آفیسرز اور بلوچستان کے مختلف کالجز پرنسپل صاحبان بھی موجود تھے۔اجلاس میں محکمہ ہائر ایجوکیشن اور سیکنڈری ایجوکیشن کے ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

بتایا گیا کہ مالی سال 2021-22 کے دوران ہائر ایجوکیشن کے لیے 15,541 ملین روپے مختص کیے گئے جن میں سے 14,871 ملین روپے خرچ ہوئے، جبکہ 670 ملین روپے کی بچت ظاہر ہوئی جوکہ بروقت سرینڈر نہ ہو نے کی وجہ سے لیپس ہو گئے۔ کمیٹی نے اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ بجٹ کے بروقت استعمال اور قواعد کی پاسداری نہیں کی جاتی اور رقوم آخری وقت میں واپس کی جاتی ہیں۔

اجلاس میں کمیٹی کے رکن زابد علی ریکی نے کہا کہ محکمہ جات کی جانب سے بروقت بجٹ واپس نہ کرنا سنگین غفلت ہے اور یہ عمل جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ محکمہ خزانہ تاخیر سے بجٹ واپس کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا۔ اصغر ترین نے کہا کہ بجٹ کی بروقت واپسی یقینی بنائی جائے تاکہ عوامی وسائل ضائع نہ ہوں۔

ولی محمد نورزئی نے کہا کہ محکمہ تعلیم اپنے ترقیاتی فنڈز کے حساب نہیں دے رہا ہے اور اس کی ذمہ داری سی اینڈ ڈبلیو پر ڈال رہا ہے جبکہ فنڈز محکمہ تعلیم کے ہیں ان کی نگرانی ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کے مختلف اداروں کے پرنسپل صاحبان نے 479 ملین روپے سرکاری خزانے کے بجائے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں رکھے، جو کہ قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

کمیٹی نے اس معاملے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پرنسپل صاحبان کو طلب کر کے اس معاملہ پرنظرثانی کریں اور وضاحت لی جائے رقم فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔سیکنڈری ایجوکیشن کے حوالے سے بتایا گیا کہ 54,687 ملین روپے مختص ہوئے جن میں سے 51,096 ملین روپے خرچ کیے گئے جبکہ 3,590 ملین روپے کی بچت ظاہر ہوئی جوکہ محکمہ تعلیم کے حکام کی غیر ذمہ داری ہے کہ اس غریب صوبہ کی اتنی بڑی رقم لیپس ہو گئی۔

تاہم کمیٹی نے واضح کیا کہ رولز کے مطابق اضافی رقم 15 مئی سے قبل واپس کرنا ضروری ہے۔رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ محکموں کے سیکرٹریز اپنے محکموں کی بجٹ اور اخراجات کے بروقت حساب کتاب کریں تاکہ فنڈز ضائع نہ ہوں۔ پی اے سی نے ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی کی میٹنگ نہ کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا محکمہ تعلیم کالجز اور سکولز کے سیکرٹریز کو ہدایت کی کہ 15 دن کے اندر ڈی جی آڈٹ بلوچستان کے ساتھ بیٹھ کر محکمانہ ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس بلائیں اور تمام اعتراضات و پیراز کو واضح کریں۔

غلام دستگیر بادینی نے اس امر پر زور دیا کہ عوامی فنڈز کے شفاف اور بروقت استعمال کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔اجلاس کے آخر میں چیئرمین اصغر علی ترین نے تمام اراکین اور افسران کا شکریہ ادا کیا۔