"پاکستان میں نظام انصاف کا حال،ججز خود انصاف کی تلاش میں"

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر پی ٹی آئی کا ردعمل

muhammad ali محمد علی جمعہ 19 ستمبر 2025 22:41

"پاکستان میں نظام انصاف کا حال،ججز خود انصاف کی تلاش میں"
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 ستمبر2025ء) "پاکستان میں نظام انصاف کا حال،ججز خود انصاف کی تلاش میں" ۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر پی ٹی آئی نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ "پاکستان میں نظام انصاف کا حال،ججز خود انصاف کی تلاش میں ہیں۔ ظلم کے مقابل کھڑے ہوکر پانچ جج انصاف اور قانون کی بالادستی کی فریاد کر رہے ہیں! جب عدالتوں کے دروازے کھلے ہوں مگر انصاف دربدر ہو، وہاں قانون نہیں چلتا بلکہ ضمیر کا قتل ہوتا ہے۔

ایسے ماحول میں وہ جج جنہوں نے دباؤ کو ٹھکرا کر عدلیہ کی آزادی کا پرچم بلند کیا، قوم کے زندہ ضمیر کا ثبوت ہیں۔ ہم ان بہادر ججوں کے حوصلے کو سلام پیش کرتے ہیں، کیونکہ جب انصاف کرنے والے خود انصاف کے طلبگار بن جائیں تو عام آدمی کی حالت خود اپنی داستان سناتی ہے۔

(جاری ہے)

" واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے اختیارات اور فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے الگ الگ اپیلیں دائر کر دیں۔

آئینی درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کسی جج کو کام سے روکنے کا اختیار ہائیکورٹ کو حاصل نہیں، جج کو صرف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ہی ذمہ داریوں سے روکا جا سکتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ انتظامی کمیٹیوں کے 3 فروری اور 15 جولائی کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں، ان کمیٹیوں کے اقدامات بھی کالعدم قرار دیے جائیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ رولز غیر قانونی قرار دیے جائیں۔

درخواست میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے آپ کو رِٹ جاری نہیں کر سکتی۔ پانچ ججز نے اپنے خلاف فیصلے کے خلاف انفرادی طور پر اپیلیں بھی سپریم کورٹ میں دائر کیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری سائلین کے گیٹ سے کارڈ لے کر سپریم کورٹ پہنچے، ان کے ساتھ جسٹس بابر ستار، جسٹس ثمن رفعت، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس محسن اختر کیانی بھی عدالتِ عظمیٰ میں موجود رہے، ججز نے اپیلیں دائر کرنے کے لیے بائیو میٹرک بھی کرایا۔

اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ رولز کے مطابق ایک ہی درخواست میں تمام ججز فریق نہیں بن سکتے، اسی لیے پانچوں ججز نے الگ الگ اپیلیں دائر کیں اور درخواستیں جمع کرانے کے بعد سپریم کورٹ سے واپس روانہ ہوگئے۔