طالبان کے سائے تلے کابل میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی چمک دمک

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 20 ستمبر 2025 13:20

طالبان کے سائے تلے کابل میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی چمک دمک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) جھومر، مخملیں صوفے اور جدید مشینری سے آراستہ کاسمیٹک سرجری کلینکس طالبان کے زیر سایہ افغانستان کے سخت گیر ماحول سے یکسر مختلف منظر پیش کرتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

طالبان حکومت کی قدغنوں، سماجی قدامت پسندی اور ملک میں ہر جانب پھیلی غربت کے باوجود کابل میں ایسے تقریباً 20 کلینکس کھل چکے ہیں، جو جنگوں کے خاتمے کے بعد تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

ان میں ترک ماہرین افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں اور کئی افغان استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں، جبکہ ان کلینکس میں استعمال کے لیے آلات ایشیا اور یورپ سے درآمد کیے جاتے ہیں۔

انتظار گاہوں میں زیادہ تر خواتین موجود ہوتی ہیں، اگرچہ مرد بھی ہیئر ٹرانسپلانٹ کے لیے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

خواتین مکمل پردے میں آتی ہیں، کبھی کبھار برقعے میں، لیکن چہرے پر میک اپ نمایاں ہوتا ہے۔

25 سالہ سِلسلہ حمیدی نے اپنا دوسرا فیس لفٹ کروایا۔ ان کا کہنا تھا، ''اگرچہ دوسرے ہمیں نہیں دیکھتے لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں توانائی فراہم کرتا ہے۔‘‘

طالبان حکومت نے خواتین کو یونیورسٹیوں، دفاتر، پارکس اور جم میں جانے سے روک رکھا ہے اور سفر کے لیے محرم کی شرط عائد ہے، تاہم سرجیکل کاسمیٹک علاج پر بظاہر پابندی نہیں۔

حکام اسے ''طب‘‘ تصور کرتے ہیں لیکن اخلاقی پولیس اس بات کی نگرانی کرتی ہے کہ مرد مریض کے ساتھ مرد اور خاتون کے ساتھ خاتون عملہ موجود ہو۔

کلینکس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ طالبان بھی گاہکوں میں شامل ہیں۔ ایک کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق، ''داڑھی یا بال نہ ہونا کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘‘ طالبان کی ہدایت کے بعد کہ مردوں کی داڑھی کم از کم ایک مُٹھی جتنی لمبی ہونا چاہیے، ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

کلینکس میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور ہیئر ٹرانسپلانٹ کی 260 سے 509 ڈالر تک ہے، جو عام افغانوں کے لیے خطیر رقوم ہیں۔ لیکن بعض لوگ شادی سے قبل قرض لے کر بھی یہ سرجری کراتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں زیادہ اخراجات سے بچنے کے لیے 14 برس بعد وطن واپسی پر ہیئر ٹرانسپلانٹ کرایا۔

ان کے بقول ''کلینک میں داخل ہوتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے میں یورپ میں ہوں۔‘‘

یہ کلینکس انسٹاگرام پر اشتہارات کے ذریعے نئے گاہک بناتے ہیں، جہاں جھریوں سے پاک چہرے اور گھنے بال دکھائے جاتے ہیں۔ ایک روسی نژاد افغان ڈاکٹر کے مطابق ''اکثر مریض حقیقی مسئلے کے بغیر صرف انسٹاگرام پر دیکھے گئے رجحانات کی وجہ سے سرجری چاہتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں ایک کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولیات دستیاب نہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر سرمایہ لگانا پسند کرتے ہیں۔

ادارت: مقبول ملک