بھارت: کشمیری دستکاروں پر ٹرمپ ٹیرفس کے اثرات

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 20 ستمبر 2025 12:40

بھارت: کشمیری دستکاروں پر ٹرمپ ٹیرفس کے اثرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہوال میں ایک پرانے کچی اینٹوں سے بنے مکان کی تین منزلہ ورکشاپ میں 65 سالہ اختر میر پپیئر ماشی کے ہنرمند دستکاروں کی ایک ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔

ورکشاپ میں رنگوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ مزدور فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں، ان کے ہاتھ رنگوں سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ گلدانوں، ہاتھیوں اور آرائشی ڈبوں کو پھولوں اور پرندوں کے رنگین نقش و نگار سے سجا رہے ہیں۔

میر کا خاندان تین نسلوں سے یہ فن سکھا رہا ہے اور اس کا جذبہ نئی نسلوں تک منتقل کر رہا ہے۔ آج یہ ورکشاپ صرف میر کے خاندان کی وراثت نہیں ہے بلکہ درجنوں مقامی ہنرمندوں کے گھروں کا سہارا بھی ہے۔

میر اور ان کی ٹیم امریکہ اور یورپ کے لیے ہر سال کرسمس کے خصوصی پپیئر ماشی کے فن پارے تیار کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے بھارت پر نئی محصولاتی شرحیں عائد کر دینے کے بعد تہوار کا یہ موسم اب مختلف ہو سکتا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ان نئی شرحوں سے پریشان ہیں۔ ہمیں ابھی تک کرسمس کے آرڈر موصول نہیں ہوئے۔ اگر ہمیں آرڈر نہ ملے تو میرے کاریگروں کا روزگار متاثر ہو گا‘‘

ٹرمپ کی محصولاتی پالیسی ہی ان کا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ کشمیری دستکاری کے بڑے خریدار وہ سیاح بھی ہوتے ہیں جو اس جنت ارضی کی سیاحت کے لیے آتے ہیں، لیکن اپریل میں پہلگام حملے کے بعد اس سال سیاحوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔

’یہ کام اب ہمیں خوشی نہیں دیتا‘

یہاں تک کہ کشمیری قالین بُننے والے بھی اس بات سے پریشان ہیں کہ امریکہ کے امیر خریداروں سے ان کا تعلق کہیں ختم نہ ہو جائے۔

شمالی کشمیر کے کنزر گاؤں کے قالین بُننے والے عبدالمجید کا کہنا تھا،''یہ کام اب ہمیں خوشی نہیں دیتا، اب تناؤ اور بے یقینی کی صورت حال ہے۔‘‘

کئی برسوں سے امریکہ کی طرف سے کپڑوں، قالینوں اور دستکاری کے سامان کی مانگ نے کشمیر کی دست کاری صنعت کو سہارا دیا ہے۔

لیکن روسی تیل پر واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان تنازعے کی وجہ سے امریکہ نے بھارت کی مختلف مصنوعات پر 50 فیصد تک کے محصولات عائد کر دیے ہیں۔

غیر ملکی خریدار پہلے ہی کشمیری دستکاری کی مصنوعات کے لیے زیادہ قیمتیں ادا کر رہے تھے، کیونکہ ان کے بنانے میں محنت اور فنکاری درکار ہے۔ لیکن نئی محصولاتی پالیسی کے تحت قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور مانگ میں کمی متوقع ہے، جس سے ہزاروں ہنرمندوں کی روزی خطرے میں ہے۔

دستکاری مصنوعات کے لیے اٹلی ممکنہ حریف

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے امریکی محصولات کو دستکاری کے شعبے کے لیے ''تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔

کے سی سی آئی کے سربراہ جاوید احمد ٹینگا نے کہا، ''ہمیں یقین ہے کہ حکومت اس معاملے پر کام کر رہی ہے اور برآمد کنندگان کے لیے کچھ ترغیبات دے سکتی ہے تاکہ کاروبار میں کچھ استحکام آئے۔

‘‘

کشمیر کے ہینڈی کرافٹس اور ہینڈلوم کے محکمے کے ایک سینیئر عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی صارفین کشمیر کے بجائے اٹلی سے خریداری کر سکتے ہیں جہاں امریکی محصولات کی حد 15 فیصد ہے۔

عہدیدار نے کہا، ''اس کا مطلب ہے کہ کشمیر کی دستکاریاں مارکیٹ سے باہر ہو جائیں گی۔ بہت سے امریکی صارفین نے اپنے آرڈر روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں اپنے ہنرمندوں اور کھڈیوں کو مصروف رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔

نتیجتاً بے روزگاری کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔‘‘

ریاستی حکومت کے ساتھ تقریباً 4 لاکھ ہنرمند رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے کام میں رکاوٹ مہارت کے بڑے زیاں کا باعث بن سکتی ہے۔

عہدیدار نے کہا، ''جب ایک ہنرمند کسی اور پیشے میں منتقل ہوتا ہے تو ہم نہ صرف موجودہ افرادی قوت کھو دیتے ہیں بلکہ مستقبل میں اعلیٰ معیار کی مصنوعات بنانے کی صلاحیت بھی۔

‘‘

لگژری سامان امریکی خریداروں کی پہنچ سے باہر

بھارت اور امریکہ کے درمیان موجودہ تنازعے سے پہلے برآمدی سامان پر 8 سے 12 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد تھی، اور امریکی خریدار سالانہ تقریباً 1.2 ارب ڈالر خرچ کر کے بھارت کی 60 فیصد دستکاریاں خریدتے تھے۔

کشمیری دستکاری مصنوعات برآمد کرنے والے مجتبیٰ قادری نے کہا کہ ٹرمپ کی محصولات نے اس شعبے کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔

قادری نے کہا کہ لگژری اشیاء بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں کیونکہ خریدار خریداری مؤخر یا منسوخ کر دیتے ہیں۔

قادری، جو می اینڈ کے نامی کشمیری شال اور برآمدی کمپنی چلاتے ہیں، نے کہا، ''جب محصولات 50 فیصد بڑھ جاتے ہیں تو کشمیر سے امریکہ برآمد ہونے والی ہر چیز، شال، قالین، پپیئر ماشے، لگژری اور غیر ضروری اشیاء کے زمرے میں آ جاتی ہے۔

‘‘

قادری کا کہنا تھا، ''می اینڈ کے جیسی کمپنی، جو اپنی 80 فیصد برآمدات امریکہ بھیجتی ہے، کو نمایاں نقصان ہو گا۔ مثال کے طور پر، ایک شال جو پہلے 300 ڈالر میں فروخت ہوتی تھی اب 450 ڈالر کی ہوگی، جو بڑا اضافہ ہے۔ نتیجتاً زیادہ تر لوگ اپنے آرڈر منسوخ کر دیں گے۔‘‘

بے یقینی کی فضا

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ نئی محصولات برآمدات کو نصف تک کم کر سکتی ہیں اور پورے بھارت میں 5 سے 7 لاکھ دستکاری ملازمتوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

سرینگر کے مضافات، زونیمار میں شال بُننے والی 39 سالہ افروزہ جان پہلے ہی دباؤ محسوس کر رہی ہیں۔

افروزہ، جو اپنے گھر کی کھڈی پر دن بھر کام کرتی ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ سخت محنت اور جانفشانی کا کام ہے، میری آنکھیں دکھتی ہیں اور کمر درد کرتی ہے۔ لیکن یہ ہمارا واحد ذریعہ معاش ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''ہمارے ڈیلر نے یہ کہہ کر کچھ آرڈر منسوخ کر دیے ہیں، کہ مارکیٹ میں بے یقینی ہے۔

‘‘

ان کے شوہر اور نند بھی لگژری شالیں بُنتے ہیں، جنہیں بنانے میں مہینوں سے سالوں لگتے ہیں، اور بڑے آرڈروں کے لیے ان کے خاندان کے دس یا اس سے زیادہ افراد کو کام میں شامل کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا، ''اگر ہم نے کام کھو دیا تو اس کا اثر پورے خاندان پر پڑے گا۔‘‘

سمرینہ سید، سرینگر

ج ا ⁄ ص ا