جرمنی میں زندگی کتنی محفوظ ہے؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 20 ستمبر 2025 13:20

جرمنی میں زندگی کتنی محفوظ ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) ’’نیا جرمنی‘‘ایک''شرمندگی اور المیہ‘‘ ہے۔

یہ الفاظ جنوبی افریقی-جرمن ٹریول بلاگر کرٹ کاز کے ہیں۔ وہ اپنے ویڈیو میں فرینکفرٹ کے سینٹرل ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد کے بدنام زمانہ علاقے کو ’’نئے جرمنی‘‘ کی تصویر قرار دیتے ہیں، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’جرائم، غیر قانونی تارکین وطن اور منشیات کے قبضے میں‘‘ ہے۔

ویڈیو میں نشے کے عادی افراد فٹ پاتھ پر لیٹے ہیں، ایک مشتبہ ڈیلر انہیں دھمکاتا ہے، ایک خاتون بوتل پھینکتی ہے۔ یہ ویڈیو یوٹیوب پر 60 لاکھ اور ٹک ٹاک پر ایک کروڑ سے زائد بار دیکھی جا چکی ہے۔ بہت سے نسلی تعصب پر مبنی تبصرے بھی اس پر موجود ہیں۔

(جاری ہے)

ایسی کئی ویڈیوز جرمنی میں جرائم کے بارے میں وائرل ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ زمینی حقائق کی درست عکاسی کرتی ہیں؟

برلن اور فرینکفرٹ دیہی علاقوں سے زیادہ خطرناک

کریمنالوجسٹ سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق فرینکفرٹ کا ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع علاقہ طویل عرصے سے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ رہا ہے، ''یہ تشدد کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اور منشیات کے جرائم کو بھی۔

‘‘

جرمنی میں کچھ خاص علاقے ایسے ہیں جہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔ جیسے دیگر ممالک میں، شہروں میں جرائم زیادہ اور دیہات میں کم ہوتے ہیں۔

بڑے شہر جیسے بریمن، برلن اور فرینکفرٹ میں جرائم کی سطح بلند ہے، جزوی طور پر اس لیے کہ شہروں میں سماجی عدم مساوات زیادہ ہے۔

عمومی طور پر جرمنی کو ایک ’’انتہائی محفوظ ملک‘‘ سمجھا جا سکتا ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق دیگر مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی 1980 اور 1990 کی دہائی سے جرائم کم ہوئے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے، جیسے کہ آج کی گاڑیوں کو چرانا پرانی گاڑیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہے۔

عالمی سطح پر جرمنی کہاں کھڑا ہے؟

جرمنی کی بین الاقوامی پوزیشن کو پرکھنے کا سب سے بہتر طریقہ قتل کی شرح دیکھنا ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق یہ ’’گولڈ اسٹینڈرڈ‘‘ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کا طویل ترین ڈیٹا بھی دستیاب ہے۔

2024 میں جرمنی میں قتل کی شرح 0.91 فی ایک لاکھ آبادی تھی، اور دنیا میں اس اعتبار سے 147 ویں نمبر پر رہا۔

موازنہ کریں تو جنوبی افریقہ اور ایکواڈور میں یہ شرح 40 فی ایک لاکھ سے زائد ہے، جبکہ امریکہ میں 5.76 ہے۔

بیس سال پہلے جرمنی میں یہ شرح 2.5 فی ایک لاکھ تھی، یعنی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ۔

طویل مدت میں کمی کے باوجود حالیہ برسوں میں تشدد کے جرائم میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

سوزانے کاراشٹڈ کے مطابق زیادہ تر تشدد کرنے والے نوجوان مرد ہوتے ہیں، اور اس میں مہاجرت کا کردار بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا، ’’مغربی یورپ کے کئی ممالک میں ایسے نوجوان مردوں کی تعداد بڑھی ہے جو اپنے خاندان کے بغیر آتے ہیں، جن پر سماجی کنٹرول نہیں ہوتا، اور اکثر جنگ یا خانہ جنگی سے گزرنے کے باعث ذہنی طور پر شدید متاثر ہوتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ کامیاب انضمام جرائم کو کم کرتا ہے، کیونکہ اصل وجوہات بیروزگاری اور مواقع کی کمی ہیں، نہ کہ کسی کا ملکِ پیدائش۔

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مہاجرین مقامی شہریوں کے مقابلے میں کم جرائم کرتے ہیں۔‘‘

کئی جرائم رپورٹ ہی نہیں ہوتے

میونخ کے آئیفو انسٹیٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق صنف اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ لوگ کہاں رہتے ہیں۔

یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کولون میں کریمنالوجی کی ماہر گینا روزا وولنگر کے مطابق مہاجرین شہروں میں زیادہ رہتے ہیں، اور شہری علاقے جرائم سے زیادہ جڑے ہوتے ہیں۔

تحقیقات سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ جرمن اور غیر جرمن نوجوانوں کے درمیان تشدد کے اسباب یکساں ہیں، مگر مہاجر نوجوانوں میں خطرے کے عوامل زیادہ ہوتے ہیں، جیسے تعلیم کی کمی، گھر میں تشدد کا تجربہ، یا مردانگی کے نام پر تشدد کو جائز سمجھنے والی سوچ۔

جرمنی میں جرائم کے اعداد و شمار کی سب سے بڑی ذریعہ وفاقی کریمنل پولیس آفس (بی کے اے) ہے۔ لیکن یہ صرف وہ کیسز ہوتے ہیں جو پولیس کو رپورٹ کیے جائیں۔ اصل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیونکہ کچھ جرائم کم رپورٹ ہوتے ہیں، جیسے دیہی علاقوں میں گھریلو تشدد۔

زیادہ تر تشدد میں قریبی جاننے والے ملوث ہوتے ہیں

یہی صورت حال جنسی جرائم کے ساتھ بھی ہے۔

کارشٹیڈٹ کے مطابق، ’’زیادہ تر جنسی تشدد اجنبیوں کی طرف سے نہیں بلکہ قریبی تعلقات میں ہوتا ہے، جیسے چچا، سوتیلا باپ، استاد یا کوچ۔‘‘

سوزانے کاراشٹڈ جو 25 سال پہلے جرمنی چھوڑ کر پہلے انگلینڈ اور پھر آسٹریلیا منتقل ہو گئیں، کہتی ہیں کہ جب بھی وہ اپنے آبائی شہر ہیمبرگ آتی ہیں تو ہمیشہ خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں، ’’یہاں تک کہ میٹرو میں بھی۔ مجموعی طور پر جرمنی ایک محفوظ اور دوستانہ ملک ہے، اگرچہ شاید آسٹریلیا جتنا دوستانہ نہیں۔‘‘

ج ا ⁄ ص ز (پیٹر ہِیلے، کیرا شاخٹ)
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں لکھا گیا تھا۔