بحیرہ بالٹک میں زہر پھیلاتا ہوا دوسری عالمی جنگ کا زنگ آلود گولہ بارود

DW ڈی ڈبلیو اتوار 21 ستمبر 2025 16:00

بحیرہ بالٹک میں زہر پھیلاتا ہوا دوسری عالمی جنگ کا زنگ آلود گولہ بارود

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 ستمبر 2025ء) جرمنی کے شمالی حصے میں تقریباﹰ ڈھائی ہزار کی آبادی والے ساحلی قصبے بولٹن ہاگن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ڈرک شوئنن نامی غوطہ خور جب سمندری پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں، تو وہ بڑی احتیاط سے اور آہستہ آہستہ بحیرہ بالٹک کی تہہ میں اس جگہ تک پہنچتے ہیں، جہاں سطح آب سے بہت گہرائی میں دوسری عالمی جنگ کے زمانے کے گولہ بارود کا بہت بڑا ڈھیر موجود ہے۔

تین ان پھٹے بم دریافت، کولون شہر کا بڑا علاقہ خالی

ڈرک شوئنن وہاں طرح طرح کے گولہ بارود کے بہت سے بیرونی یا بالائی ٹکڑے علیحدہ کرتے ہیں، انہیں بڑے محتاط انداز میں ایک باسکٹ میں رکھتے ہیں۔ ماہر انجینئروں، غوطہ خوروں اور بحری کارکنوں کی ایک پوری ٹیم ہر لمحے ان کی حرکات کو مانیٹر کر رہی ہوتی ہے، کیونکہ اس کا ڈرک شوئنن کے سر پر نصب ایک کیمرے کے ذریعے ان سے لائیو ویڈیو رابطہ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

سمندر کی تہہ سے نکالا جانے والا گولہ بارود

ڈرک شوئنن کی بحیرہ بالٹک کی تہہ میں تقریباﹰ ایک گھنٹے تک موجودگی کے بعد ان کے رفقائے کار کی ٹیم ان کو کھینچ کر دوبارہ سطح آب پر 'بالٹک لفٹ‘ نامی ایک موبائل پلیٹ فارم پر لاتی ہے۔ یہ موبائل پلیٹ فارم ساحلی قصبے بولٹن ہاگن سے قریب چھ کلومیٹر (3.7 میل) کے فاصلے پر سمندر میں تیر رہا ہوتا ہے۔

ساٹھ سالہ شوئنن جب پچھلی بار بحیرہ بالٹک کی تہہ سے واپس سطح آب پر آئے، تو ان کے ساتھ ہمیشہ کی طرح باسکٹ میں بہت سا زنگ آلود گولہ بارود بھی تھا۔ وہ اب تک طرح طرح کا جو ایمونیشن سمندر سے نکال چکے ہیں، اس میں 12.8 سینٹی میٹر کے بہت سے شیل، جن میں سے بہت سے تو تب تک اپنی غیر استعمال شدہ حالت میں لکڑی کے ایک ٹوٹے ہوئے باکس میں موجود تھے، اور بہت سے چھوٹے دستی بم یا ان کے ٹکڑے بھی شامل تھے۔

اپنی گزشتہ زیر آب مہم کے دوران اس غوطہ خور نے جو عشروں پرانا گولہ بارود سمندر سے نکالا، وہ ظاہر ہے کہ ان کی کوششوں کا خوش کن نتیجہ تھا۔ لیکن جتنا جنگی گولہ بارود آج بھی بحیرہ بالٹک اور بحیرہ شمالی کی تہوں میں سمندری ماحول میں زہر پھیلانے کا باعث بن رہا ہے، اس کو مدنظر رکھا جائے، تو جو کچھ اب تک کیا گیا ہے، وہ اس کام کا عشر عشیر بھی نہیں جو ابھی کیا جانا باقی ہے۔

زیر آب گولہ بارود 1.6 ملین ٹن

ماہرین کا اندازہ ہے کہ جرمنی کے شمال میں واقع دونوں سمندروں کی تہوں میں دوسری عالمی جنگ کے زمانے کا مجموعی طور پر قریب 1.6 ملین ٹن گولہ بارود پڑا ہوا ہے۔

یہ جنگی سامان اس لیے ایک بہت بڑے ماحولیاتی خطرے کی وجہ ہے کہ اس کے خول تین چوتھائی صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد اب بری طرح زنگ آلود ہیں اور ان سے دھماکہ خیز مواد ٹی این ٹی اور دیگر زہریلے مادے خارج ہو کر سمندری پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

یہ جنگی بارودی مواد سارے کا سارا ہی دوسری عالمی جنگ کے زمانے کا نہیں ہے۔ اس کا ایک حصہ تو پہلی عالمی جنگ کے دور سے ان سمندروں کی تہہ میں موجود ہے۔

سمندر میں دانستہ ڈبو دیا گیا گولہ بارود

بحیرہ بالٹک اور بحیرہ شمالی کی تہوں میں اس وقت دوسری عالمی جنگ کے دور کا جتنا بھی گولہ بارود موجود ہے، اس کا ایک بڑا حصہ اتحادی طاقتوں نے جرمنی کی حتمی شکست کے بعد دانستہ طور پر سمندر میں ڈبو دیا تھا۔

ایسا اس لیے کیا گیا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں اتحادی طاقتوں کی سوچ یہ تھی کہ جنگی شکست کے بعد جرمنی نے اگر دوبارہ کبھی کسی عسکری جارحیت کا ارادہ کیا بھی، تو اس کے پاس ایسا کوئی بارودی ذخیرہ نہیں ہونا چاہیے، جسے وہ استعمال کر سکے۔

اس دور میں ایسے بارودی سامان حرب کی تلفی کا سب سے آسان اور فوری طریقہ یہ سمجھا گیا تھا کہ اسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔

1946 میں جرمنی بھر سے بہت سی ایسی مال گاڑیاں شمالی ساحلی علاقوں کی طرف بھیجی گئی تھیں، جن پر یہ گولہ بارود لدا ہوا ہوتا تھا۔

تب جرمن ماہی گیروں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ کشتیوں کے ذریعے اس بارودی مواد کو بحیرہ بالٹک اور بحیرہ شمالی میں اس کے لیے نامزد کردہ 'ڈسپوزل ایریاز‘ تک پہنچائیں۔ ان ماہی گیروں نے تب بہت سے واقعات میں یہ بارودی مواد دونوں سمندروں میں دوسری جگہوں پر بھی پھینک دیا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عشروں پر محیط عرصے میں پانی کے بہاؤ اور تیز سمندری لہروں کی وجہ سے یہ ایمونیشن اب سمندر کی تہہ، خاص طور پر بحیرہ شمالی میں تقریباﹰ ہر جگہ پھیل چکا ہے۔

جرمنی کی طرف سے صفائی کے لیے سو ملین یورو

جرمنی کے دونوں شمالی سمندروں کی تہوں میں اس جنگی گولہ بارود کی صفائی کے لیے برلن حکومت اب تک 100 ملین یورو مہیا کر چکی ہے۔

یہ رقوم غوطہ خوروں کی ان ٹیموں کے لیے ہیں، جنہیں یہ جائزہ لینا ہے کہ اس ایمونیشن کو سمندر سے نکالنے کے بہترین طریقے کون سے ہیں۔

اس کے علاوہ ماہر انجینئروں کی ایک ٹیم بھی اس بارے میں کام کر رہی ہے کہ دونوں سمندروں کو اس بارودی مواد سے پاک کرنے کے بہترین ممکنہ راستے کون سے ہیں۔

اس سلسلے میں چار ہفتے دورانیے کے موجودہ پائلٹ پراجیکٹ پر کام بحیرہ بالٹک میں گزشتہ مہینے کے اواخر میں شروع ہوا تھا۔ اس منصوبے پر ان دنوں ماہر غوطہ خوروں اور انجینئروں کی دو ٹیمیں بارہ بارہ گھنٹوں کی شفٹوں میں روزانہ مسلسل 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں۔

ادارت: افسر اعوان