اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 ستمبر 2025ء) چین میں ملکی دارالحکومت بیجنگ اور خصوصی انتظامی علاقے ہانگ کانگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق تین سال قبل غیر ملکی سرمایہ کاروں نے چینی بازار حصص کو ناقابل سرمایہ کاری قرار دیتے ہوئے وہاں سے نکلنا شروع کر دیا تھا، لیکن اب یہی بیرونی سرمایہ کار دوبارہ چینی اسٹاک مارکیٹ کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں۔
چین ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کو سعودی عرب تک لے جانے کا خواہش مند
اس عمل میں ایسے افراد اور اداروں کو حوصلہ افزائی ان امکانات کی وجہ سے بھی ہو رہی ہے جو چینی منڈی اب ٹیکنالوجی کے شعبے میں انویسٹمنٹ کے لیے پیش کر رہی ہے۔
ساتھ ہی یہ پہلو بھی نمایاں اہمیت کا حامل ہے کہ بہت سے انٹرنیشنل انویسٹر اب امریکی اثاثوں میں سرمایہ کاری سے ہٹ کر بھی اپنے لیے زیادہ تنوع اور کامیابی کی تلاش میں ہیں۔
(جاری ہے)
چین میں مصنوعی ذہانت کے استعمال اور سیمی کنڈکٹرز کے شعبوں میں ترقی
بیرونی سرمایہ کار اب چین میں دوبارہ زیادہ سرمایہ کاری کے منصوبے کیوں بنا رہے ہیں؟ اس کے اسباب متنوع ہیں۔ مثلاﹰ چینی معیشت نے اپنے ہاں مصنوعی ذہانت یا اے آئی کو اپنانے میں بڑی تیزی دکھائی ہے۔ چین اپنے ہاں سیمی کنڈکٹرز کی تیاری کے شعبے میں بھی تیز رفتاری سے کام کر رہا ہے اور چینی کمپنیاں ادویات کی تیاری میں بھی بڑی جدت پسندی سے کام لے رہی ہیں۔
ان حالات میں ملکی اسٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ کمپنیاں جب متاثر کن منافع کماتی ہیں، تو وہ نئے ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ بڑے بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔
چین اگرچہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کے ساتھ محصولات کے باعث ایک باقاعدہ تجارتی جنگ میں بھی الجھا ہوا ہے، تاہم دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر چینی ترقی نے بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو اس چینی امریکی تجارتی جنگ کی وجہ سے کسی خوف میں مبتلا نہیں کیا۔
ایسے انویسٹرز کے لیے تسلی کی بات یہ بھی ہے کہ تجارتی محصولات سے متعلق چینی امریکی تنازعے میں اب ''جنگ بندی‘‘ ہو چکی ہے اور چینی حکومت کی طرف سے مالیاتی پالیسی کے حوالے سے داخلی ماحول بھی زیادہ ''پرسکون اور آرام دہ‘‘ بنایا جا رہا ہے۔
شنگھائی اور ہانگ کانگ کے بازار ہائے حصص کی شاندار کارکردگی
چین کے تجارتی مرکز شنگھائی میں اسٹاک مارکیٹ کا انڈکس ابھی گزشتہ ہفتے ہی پچھلی ایک دہائی کے دوران اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔
اسی طرح گزشتہ دنوں ہانگ کانگ کی اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی بھی پچھلے چار سال کے دوران اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔چین میں ان دونوں اسٹاک مارکیٹوں میں یہ حالیہ بہتری زیادہ تر صرف داخلی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا نتیجہ تھی۔ لیکن جب غیر ملکی سرمایہ کاروں کی چینی منڈیوں میں دوبارہ بڑھتی ہوئی دلچسپی کو بھی مدنظر رکھا جائے، تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ دنوں میں چینی سٹاکس کی کارکردگی مزید بہتر ہی ہو گی۔
ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف
بریٹ بارنا ایک سابق ہیج فنڈ مینیجر ہیں، جو اب نیو یارک میں اپنا ایک انویسٹمنٹ آفس چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''دوسروں سے پہلے پرواز شروع کرنے والے پرندوں کے طور پر‘‘ کئی غیر ملکی سرمایہ کار تو واپس چین پہنچ بھی چکے ہیں۔
بریٹ بارنا نے کہا، ''چینی اسٹاک مارکیٹیں دلچسپ ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔
‘‘ بارنا کے مطابق وہ خود بھی اب ایک ایسا نیا انویسٹمنٹ پلیٹ فارم متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے ذریعے امریکہ اور یورپ کے سرمائے کی چینی مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو ممکن بنایا جا سکے۔چینی اسٹاک مارکیٹ کی مالیت
بین الاقوامی مالیاتی ماہرین کے مطابق چینی اسٹاک مارکیٹ، اگر اس میں ہانگ کانگ کو بھی شامل کر لیا جائے، کی مجموعی مالیت تقریباﹰ 19 ٹریلین ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
الائنس گلوبل انویسٹرز نامی ادارے کے چین میں سرگرم یونٹ کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر ژینگ یوچینگ کہتے ہیں، ''ایک سال پہلے تک لوگ چینی اسٹاکس سے دور بھاگتے تھے۔ آج ان کی حالت یہ ہے کہ وہ ثابت قدمی کے ساتھ بہت اچھی طرح ترقی کر رہے ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
اسی طرح بین الاقوامی سرمایہ کاری فرم کیمبرج ایسوسی ایٹس کے سینئر انویسٹمنٹ ڈائریکٹر بینجمن لو نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ان کے ادارے کو سال رواں کے دوران اب تک تقریباﹰ 30 ایسی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جن میں انٹرنیشنل اسٹاک انویسٹمنٹ کرنے والی شخصیات یا اداروں نے کہا کہ ان کے لیے چین میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیا جائے۔
ادارت: افسر اعوان