گڈ گورننس کیلئے پاکستان کے تمام 33 ڈویژن کو الگ الگ صوبہ بنایا جائے، میاں عامر محمود

گورننس کی کمزوری سے ادارے کمزور ہوجاتے ہیں جو کرپشن کو جنم دیتے ہیں، عوام کومسائل کے حل کیلئے اداروں میں رشوت دینا پڑتی ہے �وبے ہوں گے تو کسی کے 33بیٹے یا بھائی نہیں ہوں گے پھر ان کو سیاسی ورکرز کی ضرورت پڑے گی، اگر کسی نے ایک صوبے میں اچھا پرفارم کردیا تو وہ ترقی بھی کرے گا، چیئرمین پنجاب گروپ کا سیمینار سے خطاب

جمعرات 25 ستمبر 2025 20:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 ستمبر2025ء) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ جب گورننس کمزور ہوتی ہے تو ادارے بھی کمزور ہوجاتے ہیں، کمزور ادارے کرپشن کو جنم دیتے ہیں، عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے اداروں میں رشوت دینا پڑتی ہے، تجویز ہے کہ پاکستان کے تمام 33ڈویژن کو الگ الگ صوبہ بنایا جائے۔فاسٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں سیمینار ’’2030 کا پاکستان، چیلنج، امکانات اور نئی راہیں‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے میاں عامر محمود نے کہا کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کو بنانے کیلئے 7چیزیں ضروری ہیں جن میں سب سے پہلے پبلک ویلفیئر کا ذکر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی عدالتیں انصاف کررہی ہوں، اکنامک اورپولیٹیکل ویلفیئر ہو، ملک کی حفاظت کی ذمہ داری بھی لوگوں کی ہو، یہ 7 اجزا ماڈل سٹیٹ کے وجود کا باعث بنتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے 4 صوبے ہیں اور25کروڑ کا ملک ہے، ملک، صوبے اورشہر بنانے میں اصل کردارپبلک ویلفیئر کا ہی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ورلڈ بینک نے ایک رپورٹ 2019میں شائع کی کہ چند سال بعد پاکستان کیسا ہوگا، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کے سروے میں ہم 109ویں نمبر پر ہیں، ہمارے ملک میں قتل کے مقدمے پر 16سی18سال لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے 44فیصد بچوں کی اسٹنٹنگ گروتھ ہورہی ہے کیونکہ متوازن غذا نہیں مل رہی، ہمارے ا?دھے بچوں کے دماغ اور جسم ڈویلپ نہیں ہورہے، جب ہمارے بچے بڑے ہوں گے تو بے روزگار ہوں گے، ایک فیصد خوش قسمت بچے یونیورسٹیوں تک پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے روزگار لوگ ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے، آدھی آبادی ایسی ہوگی جس کے دماغ اورجسم ٹھیک سے ڈویلپ ہی نہیں ہوں گے، آج یہ کام نہ کیا تو 20سال بعد کا مستقبل بھی خراب کرچکے ہوں گے، ہمیں کسی راستے پر چلنا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت کے حالات ہم سے بہت خراب تھے، بھارت کی یہ حالت تھی کہ وہ سونا دوسرے ممالک میں لے کر جاتا تھا اورقرض لیتا تھا، کبھی آپ بھارت کو 1960سی1991تک پڑھیں تو لگے گا دنیا کا کوئی بھوک سے متاثرہ ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ جب آندھرا پردیش اورتلنگانہ الگ الگ ہوئے، تقسیم کے وقت آندھرا پردیش کی فی کس آمدن 93ہزار بھارتی روپے تھی، تلنگانہ کی فی کس آمدن 124ہزار بھارتی روپے تھی، 10سال بعد آندھرا پردیش کی فی کس آمدن بڑھ کر 268ہزاربھارتی روپے ہوگئی جبکہ تلنگانہ کی 10سال بعد فی کس آمدن بڑھ کر 3لاکھ56ہزار بھارتی روپے ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب آبادی کا 51فیصد ہے، پنجاب اس وقت باقی 3صوبوں سے بڑا ہے، پنجاب کو سائز اوروسائل کی وجہ سے گالی بھی پڑتی ہے، بلوچستان رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ہے، ہم نے 78 سال میں صرف 5 کیپٹل سٹی ڈویلپ کیے ہیں، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، فیصل آباد میں ایک ڈھنگ کا ہسپتال، سکول یا کالج نہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب گورنمنٹ لاہور میں بیٹھ کر 50ہزار سکول چلاتی ہے، دنیا کی کوئی بھی تھیوری لگا دیں وہ نہیں چل سکتے، ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ بچہ گورنمنٹ سکول میں کیوں نہیں پڑھ پارہا، 78سالوں میں حکومت میں اچھے لوگ بھی آئے ہوں گے اور برے بھی، ہمیں سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب گورنمنٹ ہسپتال کے ایک بیڈ پر 60لاکھ روپے لگاتی ہے جو کم نہیں، پیسوں کی نہیں گورننس کی کمی ہے، صوبوں کے پاس وسائل اور پیسے ہیں، اتنی بڑی مینجمنٹ کو مینج کرنے کی کیپسٹی نہیں، ہم کہہ رہے ہیں مسائل کے حل کیلئے چھوٹے صوبے بنیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری33ڈویژن ہیں،اگر آپ ان 33 ڈویژن کی باؤنڈریز کو چھیڑیں گے تو پھر اس پر اتفاق نہیں ہوگا، جب لوگ قومیت کو درمیان میں لاتے ہیں تو انتشار پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ 33ڈویژن کئی صدیوں سے ایسے ہی چل رہے ہیں، ہم کہہ رہے ہیں اس کمشنر کو چیف سیکرٹری بنادیں، ہم کہہ رہے ہیں اس آر پی او کو آئی جی بنادیں، یہ 33ڈویژن پہلے سے بنے ہوئے ہیں اورچل رہے ہیں اس لیے ہم ان کی بات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب 33صوبے ہوں گے تو کسی کے 33بیٹے یا بھائی نہیں ہوں گے پھر ان کو سیاسی ورکرز کی ضرورت پڑے گی، اگر کسی نے ایک صوبے میں اچھا پرفارم کردیا تو وہ ترقی بھی کرے گا۔