گروپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی کوشش میں ملوث بھارتی شہری نکھل گپتا کے ہوشربا انکشافات

ہفتہ 27 ستمبر 2025 21:40

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 ستمبر2025ء) نیو یارک میں سکھ رہنما گروپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کی سازش پر گرفتار بھارتی شہری نکھل گپتا کے مزید ہوشربا انکشافات سامنے آگئے ہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ان انکشافات نے بھارت کی مودی حکومت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا جو دوسرے ممالک میں'' را'' کے ایجنٹوں کے ذریعے قتل جیسے گھنائونے جرائم کراتی ہے۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق نکھل گپتا کو جون 2023میں جمہوریہ چیک سے گرفتار کرکے امریکہ منتقل کیا گیا تھا جہاں اس پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ نکھل گپتا بظاہر ایک تاجر ہے جو کئی ممالک میں فضائی سفر کرتا رہتا ہے اور اسے بھارتی انٹیلی جنس آفیسر آکاش یادو نے سکھ رہنما کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ نکھل گپتا پر بھارت میں دھوکہ دہی سمیت متعدد مقدمات درج تھے اور'' را'' کے افسر آکاش یادو نے ان مقدمات سے بری کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

(جاری ہے)

آکاش یادونے نکھل گپتاسے کہا تھا کہ وہ بس ایک سکھ رہنما کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل کرے۔ تاہم امریکی انٹیلی جنس کو خبر ہوگئی تھی اور سکھ رہنما محفوظ رہے۔ بلومبرگ کے بقول عدالت دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ نکھل گپتا اور آکاش یادو نے نیپال اور پاکستان میں ایک اور ہدف کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی تھی۔نکھل گپتا اور یادو کا تعلق 2023میں کینیڈا میں خالصتان کے سرگرم کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے بھی ہے۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق گروپتونت سنگھ اور ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا اور امریکہ میں خالصتان تحریک کے ساتھی اور نمائندہ چہرے تھے۔امریکی استغاثہ نے جو شواہد عدالت میں جمع کرائے ہیں ان میں نکھل گپتا اور یادو کے درمیان سینکڑوں واٹس ایپ پیغامات اور ای میلز شامل ہیں۔بلومبرگ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزمان کے ان موبائل پیغامات میں ہدف، ہتھیاروں کی فراہمی اور منصوبہ بندی پر بات چیت ہوئی۔

بلومبرگ کے مطابق بھارت نے بھی اعتراف کیا تھا کہ اس کے ایجنٹ ممکنہ طور پر امریکہ میں قتل کی کوشش کی سازش میں ملوث ہو سکتے ہیں اور ایک فرد کو'' را'' سے برطرف کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت کی اس دراندازی اور دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان، نیپال، امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ بھارت کے تعلقات کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔