لاجسٹکس شعبے کی نا اہلی سے پاکستان کے ایکسپورٹرز پریشان ہیں، میاں زاہد حسین

پیر 29 ستمبر 2025 18:45

لاجسٹکس شعبے کی نا اہلی سے پاکستان کے ایکسپورٹرز پریشان ہیں، میاں زاہد ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 ستمبر2025ء)میاں زاہد حسین، صدر پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچوئل فورم اورآل کراچی انڈسٹریل الائنس، چیئرمین نیشنل بزنس گروپ پاکستان، چیئرمین پالیسی ایڈوائزری بورڈ ایف پی سی سی آئی اورسابق وزیرِانفارمیشن ٹیکنالوجی، نے پاکستان کے لاجسٹکس کے شعبے کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ شعبہ ملک کی برآمدات کی مسابقت کوشدید متاثرکررہا ہے اور کاروبارکی لاگت میں اضافہ کررہا ہے۔

انہوں نے اس شعبے میں فوری، جامع اصلاحات کی ضرورت پرزوردیا، اور کہا کہ ایک قومی لاجسٹکس اتھارٹی کا قیام اور گڈذ ریلوے کی بحالی اہم قومی ضرورت ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ہمارے خستہ حال لاجسٹکس ذرائع، پورٹس کی ناقص کارکردگی، اضافی ڈویلنگ ٹائم برآمد اور درآمد کنندگان کے لیے اضافی لاگت اور پریشانی کا باعث ہیں جس سے پاکستان کا عالمی سپلائی چین میں کردارخطرے میں پڑ چکا ہے۔

(جاری ہے)

لاجسٹکس کا شعبہ پاکستان کی جی ڈی پی کا %15.6 ہے، جوترقی یافتہ ممالک کے %9-8 سے تقریبا دوگنا ہے جواس شعبے کی غیر معیاری کارکردگی اوربلند اخراجات کو ظاہرکرتا ہے۔ پاکستان میں 94 فیصد درامدی اور برآمدی مال سڑکوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے، جس سے لاگت میں اضافہ اورایکسل لوڈ کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے سڑکوں کونقصان پہنچتا ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان ورلڈ بینک کے 2023 لاجسٹکس پرفارمنس انڈیکس سے سٹیک ہولڈرز کی عدم دلچسپی کی وجہ سے باہر ہو گیا ہے جس سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہورہا ہے۔

پاکستان میں کے پی ٹی اورپورٹ قاسم اپنی استعداد کا %45 سے بھی کم استعمال کررہے ہیں، جبکہ گوادرپورٹ کا استعمال مالی سال 25 میں صرف %0.36 تھا۔ پاکستان میں کنٹینرز کا پورٹ ڈویل ٹائم چار سے چھ دن ہے جبکہ بھارت میں یہ ڈھائی سے تین دن اور ویٹ نام میں ایک سے دو دن ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں لاجسٹکس کاشعبہ کئی وفاقی وزارتوں میں منقسم ہے، جو ایک یونیفائیڈ پالیسی کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے قومی لاجسٹکس اتھارٹی یا مکمل وزارت کے قیام پر زور دیا تاکہ عالمی معیار کے مطابق لاجسٹکس پالیسی تشکیل دی جا سکے اورسڑکوں پر باربرداری حصہ %94 سے کم کرکے %50 تک لایا جا سکے، جس کے لیے جدید ریلوے فریٹ کوریڈورز کا قیام ضروری ہے۔میاں زاہد حسین نے ٹرکنگ کوباقاعدہ صنعت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا تاکہ بینکنگ سہولیات سے ٹرکوں کی اپ گریڈیشن ممکن ہوسکے۔

انہوں نے پورٹس کے قریب عمومی اور ٹمپریچر کنٹرولڈ سٹوریج کی تعداد بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ فروٹ اور ویجیٹیبل کی کٹائی کے بعد ہونے والے %40-30 نقصانات جن کا تخمینہ 2 ہزار ارب روپے سالانہ ہے کوکم کیا جا سکے۔ انہوں نیگوادر پورٹ کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے لیے استعمال کرنے پر بھی زور دیا تاکہ اس پورٹ کی اسٹریٹجک اہمیت کوزیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔