اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اکتوبر 2025ء) زلزلے کا مرکز صوبہ سیبو کے شمال مشرق میں ساحلی شہر بوگو سے تقریباً 19 کلومیٹرکے فاصلے پر اور زمین کے اندر 5 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ یہ زلزلہ منگل کی رات مقامی وقت کے مطابق رات دس بجے آیا۔
صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر نے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا اور متاثرین کو فوری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
حکام نے کیا کہا؟
فلپائن انسٹیٹیوٹ آف وولکینالوجی اینڈ سیزمولوجی(فیوالوکس) نے ابتدا میں سونامی وارننگ جاری کی اور لوگوں کو ساحل سے دور رہنے کا کہا، تاہم بعد میں اسے واپس لے لیا کیونکہ کسی غیر معمولی سمندری لہر کا سراغ نہیں ملا۔
فیوالوکس کے ڈائریکٹر تیریسیٹو باکولکول نے ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ یہ ایک بہت طاقتور زلزلہ سمجھا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
یہ زلزلہ ایک شدید طوفان کے فوراً بعد آیا جس نے جمعہ کو سیبو کے علاقے کو متاثر کیا تھا، اس میں درخت گرنے اور سیلاب کے باعث کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
وسیع پیمانے پر نقصان اور خوف و ہراس
زلزلے سے مرکزی فلپائن کی کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں، جن میں دو چرچ اور ایک اسپورٹس کمپلیکس شامل ہیں۔
شدید جھٹکوں نے بجلی کا نظام مفلوج کر دیا، جس سے لوگ اندھیرے میں خوفزدہ ہوکر گھروں سے باہر نکل آئے۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں عمارتوں کو گرتے اور عوام کو بازار میں خوف کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
آفت سے نمٹنے والے ایک افسر ریکس یگوٹ نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ممکن ہے کیونکہ حکام ایک پہاڑی گاؤں میں ملبے اور بھاری پتھروں کے نیچے دبے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بوگو کے سیبو اسپتال میں مریضوں کا بے پناہ دباؤ ہے۔ زخمی بچے روتے رہے جبکہ بڑے علاج کے دوران چیختے رہے۔ نیلے خیموں کے نیچے اسپتال کے ڈرائیو وے پر بیڈ لگا کر علاج جاری ہے۔
سان ریمگیو قصبے کے نائب میئر، الفی رینیس نے ریڈیو پر خوراک اور پانی کی فراہمی کی اپیل کی کیونکہ زلزلے نے علاقے کا پانی کی سپلائی کا نظام تباہ کر دیا ہے۔
ادھر سیبو جزیرے کی صوبائی حکومت نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر طبی رضاکاروں سے مدد کی اپیل کی ہے تاکہ متاثرین کی دیکھ بھال کی جا سکے۔
فلپائن دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو آفات کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ بحرالکاہل کی "رِنگ آف فائر" پر واقع ہونے کے باعث یہاں اکثر زلزلے آتے ہیں، لیکن زیادہ تر اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ محسوس نہیں کیے جاتے۔
ادارت: صلاح الدین زین