اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) یورپی امپیرل ازم کی بدلی ہوئی شکل میں اب سیاست کے ساتھ معیشت اور کلچر بھی طاقت کے حصول کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔
یورپ کے عہد وسطیٰ میں ہمیں امپیریل ازم کی دو قسمیں نظر آتی ہیں جس کی مثال رومن ایمپائر ہے۔ جیسے جیسے اس کی حدود بڑھتی چلی گئیں اس کے سیاسی نظریات میں اور ایمپائر کے انتظام میں تبدیلی آتی چلی گئی۔
مثلاً ابتدا میں رومی شہریت صرف رومن کے لیے محدود تھی، لیکن جب فتوحات کا سلسلہ بڑھا تو مفتوحہ قوموں کو بھی شہریت کا حق دے دیا گیا۔ لیکن اختیارات کا مرکز روم ہی رہا۔ جب سلطنت کی حدود میں وسعت آئی تو قانون سیاسی ادارے اور بیوروکریسی میں بھی نئے رجحانات آئے۔ اس لیے رومن ایمپائر مقبوضہ ملکوں کی تہذیب، روایات اور کلچر کا اضافہ ہوا۔(جاری ہے)
رومن کے علاوہ دوسری سلطنتوں میں بھی ہم دو قسم کے رویوں کو دیکھتے ہیں۔ ایک رویہ یہ تھا کہ مقبوضہ ملک پر سختی کے ساتھ حکومت کی جائے۔ مزاحمتوں اور بغاوتوں کو کچل دیا جائے اور مقبوضہ لوگوں کو پسماندگی کی حالت میں تنہا کر کے چھوڑ دیا جائے۔
دوسری پالیسی یہ تھی کہ مقبوضہ ملک کے سابق حکمرانوں کو بحال رکھا جائے اور ان کے ذریعے نہ صرف ٹیکس وصول کیے جائیں بلکہ رعایا کو بھی کنٹرول کیا جائے۔مقبوضہ ملک کے لوگوں کے اذہان کو بدلنے کے لیے ضروری تھا کہ انکی تاریخ، علم و ادب، آرٹ، بول چال کی زبان اور کلچر کو غیر معیاری قرار دے کر ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کی جگہ امپیریل کلچر کو نافذ کیا جائے تاکہ لوگ ذہنی غلام بن جائیں۔
موجودہ دور میں جب یورپی امپیریل ازم آیا تو ایشیا اور افریقہ کے مقابلے میں وہ زیادہ برتر تھا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی صنعتی انقلاب کے نتیجے میں نئی صنعتوں کی پیداوار، خام مال کی ضرورت اور صنعتی پیداوار کے لیے نئی منڈیوں کا حاصل کرنا ضروری تھا۔ اسی دور میں جنگ کے مہلک ہتھیاروں اور جنگی تربیت میں یورپی ملکوں کی برتری کو خاصی اہمیت دی گئی۔
اس کے علاوہ یورپی ملکوں کی بحریہ نے کافی ترقی کر لی تھی۔ کیونکہ اسی کی مدد سے تجارتی مال کو ایک ملک سے دوسرے ملک لے جایا گیا اور بحریہ ہی کی مدد سے کالونیز کو قائم کیا گیا۔امپیریل ازم کے اثرات اس کی کالونیز پر بھی ہوئے۔ کالونیوں میں ایسے طبقات جنہیں آزادی کے ساتھ اپنی معاشی اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہ تھی۔ امپیرل حکومت نے ان پر سے پابندیاں ہٹا دیں جس کی ایک مثال سندھ کے ہندو تاجر ہیں۔
تالپور حکومت کے دوران ان پر پابندیاں تھیں۔ لیکن جب یہ برطانوی رعایا بنے تو پوری برطانوی کالونی کے دروازے ان کے لیے کھل گئے اور سندھ کے ہندو تاجروں نے غیر ملکی تجارت کے ذریعے بڑی دولت کمائی اور سندھ کے شہروں میں اسکول، کلب، پبلک ہال، کتب خانے اور باغات قائم کیے۔ ان کی اجڑی ہوئی شکل آج بھی موجود ہے۔ امپیرل ازم نے ہندوستان کی اشرافیہ سے اچھے تعلقات رکھے۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں کے فیوڈل لارڈز نے ہمیشہ ان کی مدد کی۔ جنگ کے دوران انہیں فنڈز (Funds) فراہم کیے اور نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کروایا۔دوسرے یورپی ممالک جنہوں نے اپنے امپیریئل ازم کی مدد سے ایشیا اور افریقہ پر قبضے کیے ان میں فرانس ، ہالینڈ، اسپین، پرتگال شامل تھے۔ امپیریل ازم کے بارے میں کچھ مورخوں کا نظریہ یہ ہے کہ اس نے مختلف اقوام کو متحد کر کے ایک عالمی کلچر کی بنیاد ڈالی۔
اس لیے یہ ایک صحت مند نظریہ تھا۔ اس کو رد کرتے ہوئے کچھ مورخوں کا کہنا ہے کہ امپیریل ازم نے قومی کلچر اور شناخت کو ختم کر کے تہذیب کی خوبصورتی کو بے رنگ کر دیا۔بیسویں صدی میں یورپی کالونیز میں آزادی کی تحریکیں اٹھیں۔ تحریک کے رہنماؤں اور لوگوں نے اپنی تاریخ اور شناخت کو تلاش کر کے اپنے مقام کا تعین کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب یورپی طاقتیں آپس میں لڑ کر کمزور ہوئی تو ان کی کالونیز آہستہ آہستہ آزاد ہونا شروع ہوئی۔
اور قومی ریاست کا وجود عمل میں آیا۔ لہذا ہر قوم نے اپنے کلچر، تاریخ ، ادب اور آرٹ کے شعبوں میں اپنی تخلیق کے ذریعے اپنی قومیت کا اظہار کیا۔امپیریل ازم کے خاتمے کے بعد یورپ نے اپنے تسلط کے لیے عالمگیریت یا گلوبل لائزیشن کے نظریے کو اختیار کیا۔ اس نظریے کو اپنانے کا مقصد کسی قوم کی انفرادیت کو ختم کرنا اور اسے عالمگیریت کا حصہ بنانا تھا۔
درحقیقت عالمگیریت کا مطلب امریکہ اور یورپ کا تسلط تھا۔ یہ امپیریل ازم کی ایک نئی شکل تھی۔ اس کا مقابلہ صرف ایک قومی ریاست کے ذریعے ہو سکتا تھا ۔مغرب اور مشرق کے درمیان جو فرق ہے کبھی وہ تہذیب کی برتری کی صورت میں ابھرتا ہے کبھی سائنس اور ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی ہے۔ کبھی سیاست کے ذریعے مداخلت کے بعد ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو کمزور کیا جاتا ہے، تو کبھی معاشی کنٹرول کے ذریعے ان کے خام مال اور معادنیات کو لوٹا جاتا ہے۔
اور کبھی تعلیم اور ادب کے ذریعے ان میں احساس کمتری پیدا کی جاتی ہے۔ یہ فرق اسی وقت دور ہوگا جب ایشیا اور افریقہ کے عوام میں سیاسی شعور آئے گا اور وہ اس فرق کو مٹا کر باعزت مقام حاصل کرسکیں گے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ