اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) یہ صورتحال محض ایک شہر تک محدود نہیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس کی پہلی ششماہی میں ملک بھر سے 605 بچوں کے اغوا اور 192 بچوں کے گم ہونے کے واقعات ریکارڈ کا حصہ بنے۔
بلوچستان میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات
پنجاب میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں کے پیچھے کون ہے؟
اگر ہم گزشتہ برس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو غیر سرکاری تنظیم سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2024 میں ملک بھر سے 2,400 سے زائد بچوں کے اغوا کے واقعات سامنے آئے۔
بچوں کے اغوا منظم گروہوں کی کارروائیاں ہیں یا چند افراد کی ذاتی مجبوریوں اور محرومیوں کا نتیجہ؟
ڈارک ویب: اغوا کی اکثر سرگرمیاں منظم گروہوں کی کارروائیاں
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی چیئر پرسن ڈاکٹر منزہ بانو کے مطابق بچوں کے اغوا کے بیشتر واقعات منظم گروہوں کی کارروائیاں ہیں۔
(جاری ہے)
ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ’’میری رائے میں زیادہ تر کیسز میں بچوں کو منظم گروہ اغوا کرتے ہیں جن کے لیے یہ ایک معاشی سرگرمی ہے۔ ایسے گروہ بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنا کر ڈارک ویب کے ذریعے پیسہ کماتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کو اغوا کر کے خود مستفید ہونا یا انہیں سیکس ورکر کے طور پر تیار کرنا بہت تکلیف دہ بات ہے لیکن ہم اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔
"جون کے پہلے ہفتے میں وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ڈی جی سائبر کرائم ایجنسی کے ساتھ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مظفر گڑھ میں ایک ایسے گروہ کے گرفتار کیے جانے کا انکشاف کیا جو بچوں کی نامناسب ویڈیوز بنا کر انٹرنیشنل سطح پر فروخت کر رہا تھا۔
پریس کانفرنس میں طلال چوہدری نے بتایا،”گینگ مظفر گڑھ میں بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث تھا، بچوں کی ویڈیوز کو ڈارک ویب پر بیچا جاتا تھا۔
سائبر کرائم ونگ نے ایک بڑا نیٹ ورک پکڑا ہے۔ 23 مئی کو پانچ گھنٹے طویل آپریشن کیا گیا، دو افراد گرفتار کیے گئے۔ دس بچے بازیاب کرائے گئے پانچ بچوں کو چائلد پروٹیکشن بھیجا گیا۔"مختلف غیر سرکاری رپوٹس بچوں کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا ذکر کرتی ہیں۔
کراچی کی غیر منافع بخش تنظیم روشنی ہیلپ لائن 1138 کی دو سال پہلے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اغوا ہونے والے 33 بچوں کی لاشیں ملیں جن میں سے بیس کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
کیا سماجی دباؤ بھی ایسے جرم پر مجبور کر سکتا ہے؟
فیصل آباد میں حالیہ دو واقعات کی ابتدائی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اولاد نہ ہونے کی محرومی اور معاشرتی دباؤ بعض اوقات انسان کو بچوں کے اغوا جیسے انتہائی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں۔
ایک واقعے میں خاتون نے بتایا کہ شادی کے آٹھ سال بعد بھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ شدید دباؤ کا شکار تھی۔
خاندان کے دباؤ اور ذاتی خواہش کے تحت اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک بچے کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔دوسرے واقعے میں ایک عورت نے بچہ نہ ہونے کے سبب حمل کا ڈرامہ رچایا اور بعد میں ایک نومولود کو اغوا کر کے اپنا بتانے کی کوشش کی۔
سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس اس حوالے سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''خدانخواستہ اگر میری یا آپ کی اولاد نہ ہو تو کیا ہم ہسپتال جا کر بچہ اغوا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟ اسے یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن ایسے واقعات منظم گروہوں کی کارروائیاں ہی ہوتے ہیں جو بچوں کو چوری، منشیات لے جانے، ان کے اعضاء یا انہیں سمگل کرنے، پورنوگرافی یا دوسرے جرائم میں استعمال کرنے کے لیے اغوا کرتے ہیں۔
ممکن ہے مزید تفتیش میں یہ بات واضح ہو کہ مذکورہ واقعات میں ملوث افراد فرداً فرداً نہیں بلکہ منظم طریقے سے کام کر رہے تھے۔"فیصل آباد کی ڈاکٹر عائشہ احمد کے مطابق ہسپتالوں کی نرسری سے بچوں کے اغوا میں زیادہ تر بانجھ پن کا شکار جوڑے یا سماجی دباؤ کا سامنا کرنے والی خواتین ہوتی ہیں، جبکہ منظم گروہ نسبتاً بڑے بچوں کو نشانہ بناتے ہیں جنہیں پالنا اور استعمال کرنا آسان سمجھا جاتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جہاں چھوٹا عملہ اندرون خانہ ملا ہوتا ہے اور بدلے میں بھاری رقوم حاصل کرتا ہے۔"عائشہ احمد کے بقول، ”بے اولاد جوڑے عموماً رشتہ داروں سے بچہ لے کر پرورش کرتے ہیں لیکن کئی بار سماجی طعن و تشنیع اور مستقبل میں حقیقی والدین کے دعووں کے خوف سے وہ یہ راستہ اختیار نہیں کرتے، اسی لیے غیرقانونی ذرائع کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔"بچوں کی بازیابی: حکومتی اقدامات کس قدر مؤثر؟
مختلف رپورٹس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اغوا یا گم ہونے والے بچے بڑی تعداد میں بازیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
روشنی ہیلپ لائن 1138 کے مطابق گزشتہ برس کی پہلی ششماہی میں لاپتہ بچوں کی تعداد تقریباً 1,100 تھی جن میں سے سال کے آخر تک تقریباً ساڑھے سات سو بازیاب کر لیے گئے تھے۔
غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ ساتھ مختلف صوبائی اور وفاقی ادارے بھی بچوں کی بازیابی اور ان کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے 'میرا پیارا ‘ پروگرام کے تحت صرف گزشتہ ایک سال کے دوران 35 ہزار سے زائد بچوں کو ان کے اہل خانہ سے دوبارہ جوڑا گیا، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔
ساحل کی چیئر پرسن ڈاکٹر منزہ بانو کے مطابق حکومتی سطح پر بچوں کی اسمگلنگ اور استحصال کے خلاف پہلے کے مقابلے میں کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے: ”پہلے یہ مشکل پیش آتی تھی کہ ایسے کیسز کس ادارے کو ریفر کیے جائیں، لیکن اب ریاستی سطح پر اس مسئلے کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
آپ پولیس کو رپورٹ کریں تو رسپانس ملتا ہے۔ اس مسئلہ کو مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘اسی حوالے سے سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید کوثر عباس کا کہنا تھا، ''ٹیکنالوجی اور جدید نظام اس جدوجہد میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ریاست نے نئی قانون سازی اور اداروں کے قیام کے ذریعے سنجیدگی کا اظہار کیا، لیکن پولیس کو اب بھی خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔
‘‘ان کے بقول، ’’جس طرح بھکاریوں کے منظم گروہ موجود ہیں، اسی طرح بچوں کے اغوا میں بھی منظم نیٹ ورکس سرگرم ہیں۔ ہر چوک پر بھکاری نظر آتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ جب تک اس صورتحال پر قابو نہیں پایا جاتا، ہر سال سینکڑوں بچے لاپتہ ہوتے رہیں گے۔ "
ادارت: افسر اعوان