غ*بلوچستان ایرانی بارڈرز بند ہونے سے روزگار کے مسائل پیدا ہوئے ہیں،پھلین بلوچ

& حکومت نے کاروبار بند کر کے عوام کا معاشی قتل کیا ہے، پارلیمنٹ ہا س کے باہر میڈیا سے گفتگو

جمعہ 3 اکتوبر 2025 18:45

^کوئٹہ /اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 اکتوبر2025ء) بلوچستان کے پارلیمانی رہنما پھلین بلوچ نے کہا ہے کہ میرا حلقہ انتخاب بلوچستان میں ایرانی سرحد سے منسلک ہے ، اس کے دو ڈویژن ہیں مکران اور رخشان ڈویژن شامل ہیں ،اس کے علاوہ چمن بارڈر شامل ہے، یہاں ایرانی سرحد بند ہونے سے علاقے میں روزگار کے مسائل درپیش ہیں ، اس اقدام سے متاثرہ خاندانوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں، کیونکہ ان کا روزگار بند کر دیا گیا ہے۔

بچوں کی تعلیم اور علاج سمیت تمام ضروریات اسی روزگار سے وابستہ تھیں۔ان خیالات کااظہار انہوںنے جمعہ کو پارلیمنٹ ہاو س کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پھلین بلوچ نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے کاروبار بند کر کے عوام کا معاشی قتل کیا ہے، خاص طور پر تیل اور ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ حکمرانوں اور سول اداروں نے خود ہی پرمٹ جاری کئے تھے اور ڈپٹی کمشنر آفس سے باقاعدہ اجازت دی گئی تھی، اس کے باوجود اب انہی کاروبار کو بند کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروبار کی بندش سے پورا معاشی نظام متاثر ہوا ہے، جبکہ بلوچستان میں روزگار کے صرف دو ذرائع ہیں ، بارڈر ٹریڈ اور سرکاری ملازمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں صنعتوں کی عدم موجودگی کے باعث صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے اور بلوچستان کو دانستہ طور پر معاشی بحران میں دھکیلا جا رہا ہے۔پھلین بلوچ نے کہا کہ حکومت بلوچستان عوام پر توجہ نہیں دے رہی، متاثرہ خاندانوں کی آواز نہ تو ایوان میں سنی جا رہی ہے اور نہ ہی انہیں کسی فورم پر انصاف مل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنی عوام کی آواز اٹھا رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ میڈیا بلوچ عوام کی ترجمانی کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے فیصلوں سے پاکستانی صنعت کاروں کو فائدہ اور بلوچ عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ "ہم پاکستانی معیشت کو بچا رہے ہیں، لیکن قربانی بلوچ عوام دے رہے ہیں۔ پھلیں بلوچ نے کہاکہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتحال کی ذمہ داری قبول کرے اور فوری اقدامات اٹھائے۔ پھلین بلوچ نے کہا کہ اسمبلی میں موقع ملا تو یہ مسئلہ دوبارہ بھرپور انداز میں اٹھائیں گے اور احتجاج کے تمام جمہوری طریقے استعمال کریں گے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ ہماری تعداد چاہے کم ہے، مگر ہماری آواز سب سے بلند ہے، ہم اپنی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔