عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 4 اکتوبر 2025 13:00

عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) ’’یہ 23 مارچ 2003 کی بات ہے جب مجھے کسی نے بتایا کہ لاکھوں سال قدیم ہاتھی دانت کےانمول فوسل کو کلہاڑوں سے کاٹا جاچکا ہے۔ جب میں وہاں پہنچا تواس کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا۔ اس وقت موبائل فون عام نہ تھے، تاہم کسی نہ کسی طرح شعبہ حیوانات، جامعہ پنجاب سے رابطہ کیا گیا تو ڈاکٹرعبدالغفاراور زبیدالحق وہاں پہنچے۔

‘‘ عابد حسین نے یہ بات ڈی ڈبلیو کو بتائی۔

قدیمی عظیم الجثہ جانور کی باقیات دریافت

نظام دوران خون رکھنے والا قدیم ترین جاندار دریافت

عابد حسین، ضلع جہلم کے چھوٹے سے گاؤں 'تتروٹ‘ کےرہائشی ہیں جن کے پاس ارضیات اور حیوانیات کی باقاعدہ ڈگری تو نہیں لیکن اوائل عمر میں انہوں نے ڈائنوسار کی ہڈیوں کے متعلق پڑھا اوران کی تلاش میں چل پڑے۔

(جاری ہے)

اب تک وہ لاتعداد قدیم جانداروں کی نشاندہی کر کے سائنسی لٹریچر میں اضافے کی وجہ بن چکے ہیں۔

پاکستان کا 'فوسلستان‘

تتروٹ میں جا بجا لاکھوں برس پرانے جانوروں کی ہڈیاں بکھری ہوئی ہیں جو مقامی ارضی لحاظ سے اپر سوالِک کا علاقہ ہے جہاں 35 سے 5 لاکھ سال پرانے جانوروں کےفوسل پائے جاتے ہیں۔ انہیں نیو جین (نئی پیدائش) کے جاندار بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت زمینی تبدیلیوں سے طرح طرح کے جانور پیدا ہوئے جن پر تحقیق میں پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے۔

اب بھی یہاں فوسل آسانی سے مل جاتے ہیں جن کا اولین ذکرانیسویں صدی میں بھی ملتا ہے۔

عابد حسین کا گھر بالخصوص موسمِ سرما میں اسکالروں کی آماجگاہ ہوتا ہے جہاں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرین، فوسل کی تلاش میں ان کے مہمان بنتے ہیں۔ ان کی مدد سے اب تک 22 طلبا و طالبات پی ایچ ڈی اور ایم فل مکمل کرچکے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی مقالوں میں ان کا نام بھی شامل ہے۔

پاکستان کے معروف ماہرِ قدیم حیوانات اور چولستان یونیورسٹی بہاولپورمیں شعبہ حیوانیات کے ڈین، ڈاکٹر عبدالغفارنے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عابد حسین سے ان کی پہلی ملاقات 1998 میں ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا، '' نہ صرف جہلم، بلکہ چکوال کے کئی علاقے فوسلز سے بھرے ہوئے ہیں جو اسے بین الاقوامی شہرت یافتہ نیچرل میوزیم بناتے ہیں۔

یہاں ناپید زرافوں، گینڈوں، گوشت خور درندوں، ہرن، چوپائیوں، چوہوں اور ہاتھیوں کی نئی اقسام بھی دریافت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیا میں قدیم ہاتھی کا سب سے بڑا دانت ملا ہے جس کی لمبائی 8 فٹ 11 انچ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر عابد حسین پیلی اونٹولوجی کے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنا خود جہلم کا علاقہ ہے۔‘‘

جامعہ پنجاب کے شعبہ حیوانیات میں قائم 'ابوبکر فوسل اینڈ ڈسپلے ریسرچ سینٹر' میں 'اینانکس سیولینسس‘ نامی ہاتھی کا دانت رکھا ہے۔

چھوٹی سونڈ اور بڑے دانتوں والے ہاتھیوں کی یہ نسل لگ بھگ ٍ15 لاکھ سال قبل صفحہ ہستی سے مٹ گئی تھی۔

قدیم زندگی کے نئے ابواب

واضح رہے کہ سوالک گروپ یا فارمیشن کے آثار اور ان میں موجود فوسل اپنی وسعت کی بنا پر بھارت تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک سے 'راما پتھیکس‘ اور 'شیواپتھیکس‘ انواع کے جبڑے اور کھوپڑی کی ہڈیاں ملیں تو پہلے کہا گیا کہ یہ قدیم انسانوں کے آثار ہیں۔

تاہم مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ گہرے نارنجی بالوں سے ڈھکے اورنگ اٹان بندر کے جد تھے جن کی اونچائی ایک سے ڈیڑھ میٹر ہوا کرتی تھی۔

تتروٹ فوسل نے حیاتیات کی گتھیوں کو بھی سلجھایا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ عابد حسین نے سنایا کہ کسی نے انہیں ایک جانور کا سینگ لاکر دیا تو وہ اس کے قائل نہ ہوئے۔ لیکن جب ڈاکٹر عبدالغفار اور ان کے ساتھیوں نے اسے دیکھا تو کہا کہ یہ کسی بھینسے کا سینگ ہے اور اسی مقام پر دوسرا سینگ تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔

عابد حسین اسی آدمی کی رہنمائی میں سینگ والے مقام تک پہنچے اور وہاں کھدائی شروع کی تو دوسرا سینگ بھی نکل آیا۔ اس سے قبل یہاں بھینسے کے سینگ نہیں ملے تھے اور خود غیرملکی ماہرین بھی اس پر متفق تھے۔ تاہم یہ ایشیا میں اس دور کے بھینسے کی یہ پہلی دریافت بھی ہے۔

تتروٹ کا چڑیا گھر

اگرچشمِ تصور سے دیکھا جائے تو تتروٹ کا پرسکون گاؤں دسیوں لاکھوں برس قبل سبزے سے بھرا جنگل تھا۔

یہاں قدیم ہاتھی چنگھاڑتے تھے، چھوٹی گردن والے زرافے جگالی کرتے تھے، چوہا ہرن قلانچے بھرتے تھے، درندے غراتے تھے، انہیں دیکھ کر چھوٹے ممالیے چھپ جایا کرتے تھے اور قدیم مگرمچھ اور کچھوے یہ منظر دیکھتے تھے۔ آج ان کی کہانی پتھروں پر لکھی ملتی ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ علاقہ ہمیں ناپید حیات، قدیم موسم، حیوانوں کی نقل مکانی اورحیاتیاتی تنوع کی داستان سناتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر محمد زبیر ابوبکر، ماجد خان، ڈاکٹر سمیع اللہ، ڈاکٹر منظور، ڈاکٹر اختر، ڈاکٹر اکبر، ڈاکٹر عبدالغٖفار اور دیگر بے شمار پاکستانی اسکالروں کے علاوہ پوری دنیا کے ماہرین نے اس خطے میں حیرت انگیز دریافتیں کی ہیں۔ ان میں برطانیہ کے گائے پِلگرم، رچرڈ لائڈیکر، پروبی کوٹلے، ہیوفاکنر اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ جے سی بیری، ایل ایل جیکب، جے جے ہیڈ اور شیری نیلسن کا تعلق امریکہ سے ہے۔

عالمی شہرت یافتہ اس مقام پر اب بھی دنیا بھر کے ماہرین آرہے ہیں، اب بھی الماریوں میں بھری ہڈیوں کو پڑھنا باقی ہے اور مقالے لکھے جارہے ہیں۔

دنیا بھر میں شوقیہ فوسل ہنٹر، غیرمعمولی دریافتوں کی وجہ بنتے ہیں، پاکستان میں عابد حسین اس میدان کے غیرمعمولی کھلاڑی ہیں جن کی تلاش کا سفر اب بھی جاری ہے۔ بلاشبہ ان کی علمی خدمات کے صلے میں وہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے حقدار بھی ہیں۔