دنیا چاہے تو عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں روک سکتی ہے، فلیپو گرینڈی

یو این پیر 6 اکتوبر 2025 23:45

دنیا چاہے تو عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں روک سکتی ہے، فلیپو گرینڈی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اکتوبر 2025ء) پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے جنگی قوانین کی دانستہ خلاف ورزی کے رجحان کو خطرناک اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عالمی برادری بین الاقوامی قانون کی پامالی کے سامنے بے بس نہیں اور دنیا چاہے تو اس صورتحال کو روکا جا سکتا ہے۔

انہوں نے جنیوا میں ادارے کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے، یوکرین، سوڈان یا میانمار میں کیے گئے مظالم اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر عالمی اصولوں کو جان بوجھ کر اور بلاروک و ٹوک نظرانداز کر رہے ہیں۔

خوراک کے انتظار میں کھڑے لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے، پناہ گزینوں کو ان کے کیمپوں میں ہلاک کر دیا جاتا ہے، ہسپتال اور سکول بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں اور امدادی کارکنوں کی ریکارڈ تعداد جنگ ہدف بن کر ہلاک ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

فلیپو گرینڈی اس سال کے آخر میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور یہ ادارے کے سالانہ اجلاس سے ان کا آخری خطاب تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'یو این ایچ سی آر' کا مشن یعنی 'خطرات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والوں کو پناہ دینا اور ان کی مشکلات کا حل ڈھونڈنا' آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ 75 سال پہلے اس کے قیام کے وقت تھا۔

122 ملین پناہ گزین

ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ آج جنگوں اور مظالم کی وجہ سے دنیا بھر میں 122 ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں جو ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں دو گنا بڑی تعداد ہے۔

حکومتیں پناہ گزینوں کے بڑھتے ہوئے بہاؤ کو روکنے میں ناکام ہیں جس کے باعث 1951 کے پناہ گزین کنونشن میں اصلاحات لانے یا اسے ختم کرنے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔

یہ بین الاقوامی معاہدہ رکن ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ جنگ، تشدد، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم سے جان بچا کر بھاگنے والے ہر فرد کو تحفظ فراہم کریں اور جو لوگ ان معیارات پر پورا نہیں اترتے انہیں ان کے آبائی ممالک یا کسی تیسرے ملک میں باوقار انداز میں بھیجا جا سکتا ہے۔

تاہم، انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر حالیہ عرصہ میں ہونے والی بحث بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یورپ میں پناہ گزینوں سے متعلق پالیسیاں اور مہاجرین کا معاملہ اور امریکہ سے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے طریقے اس کی نمایاں مثال ہیں۔

فلیپو گرینڈی نے کہا کہ اس حوالے سے 'یو این ایچ سی آر' رکن ممالک کی رہنمائی اور مدد کے لیے موجود ہے تاکہ حکومتوں کے اقدامات قانونی دائرے میں رہیں۔

تشدد اور بے حسی

ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ آج جنگی فریقین اس بات پر یقین رکھتے ہیں جب تک عسکری مقاصد حاصل ہو رہے ہوں اندھا دھند جنگ اور تشدد جائز ہے اور ان کی جانب سے عالمی اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔

آج انسانی نقصان گویا بے معنی ہو کر رہ گی اہے۔ موت یا تباہی کی کوئی بھی تصویر اتنی خوفناک نہیں ہوتی۔ متواتر ظلم اس لیے ڈھایا جاتا ہے کہ اسے دیکھنے والوں کا ضمیر مفلوج ہو جائے اور وہ خود کو بے بس محسوس کریں۔

امدادی وسائل کا بحران

فلیپو گرینڈی نے امدادی مقاصد کے لیے وسائل کی کمی کو انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت مند لوگوں کی جامع اور پائیدار طور سے مدد ہونی چاہیے۔

جب میزبان ممالک کی پالیسیاں پناہ گزینوں کو الگ تھلگ یا انہیں مواقع سے محروم کر دیں تو اس وقت شمولیت کام نہیں آتی۔ اس کے بجائے میزبان ممالک انہیں خدمات اور ملازمتوں تک رسائی دے کر، نقل و حرکت کی پابندیوں کو ختم کر کے اور پناہ گزینوں کی صلاحیت میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے اور پناہ گزینوں کے لیے اقتصادی و سماجی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

اٹلی سے تعلق رکھنے والے فلیپو گرینڈی نے 2016 میں یہ عہدہ سنبھالا تھا اور وہ 'یو این ایچ سی آر' کے 11ویں سربراہ ہیں۔ اس ادارے کی بنیاد 1950 میں رکھی گئی تھی اور یہ 1954 اور 1981 میں امن کا نوبیل انعام بھی حاصل کر چکا ہے۔