Live Updates

قیام امن میں خواتین کی کم شمولیت پر یو این چیف کو تشویش

یو این منگل 7 اکتوبر 2025 02:15

قیام امن میں خواتین کی کم شمولیت پر یو این چیف کو تشویش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 07 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے قیام امن کے عمل میں خواتین کے کردار میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزید خواتین کو امن معاہدوں کی تشکیل، سلامتی کے شعبے میں اصلاحات اور تنازعات کے بعد بحالی کے منصوبوں میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

'خواتین، امن اور سلامتی' کے ایجنڈے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منعقدہ عام مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین ایسی جگہوں پر رہ رہی تھیں جو مہلک مسلح تنازعات کا شکار ہیں یا ان سے صرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

یہ گزشتہ دہائیوں میں ایسی خواتین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

Tweet URL

ایسی جگہوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

(جاری ہے)

لڑکیوں کے خلاف ایسے واقعات میں 35 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ بعض علاقوں میں متاثرین کی تعداد مجموعی خواتین اور لڑکیوں کا نصف ہے۔

سیکرٹری جنرل نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ گزشتہ سال منظور کیے گئے 'معاہدہ برائے مستقبل' میں 'خواتین، امن اور سلامتی' سے متعلق اپنے وعدوں پر تیزی سے عمل کریں۔ اس حوالے سے خطرات کا شکار ممالک میں خواتین کی تنظیموں کے لیے مالی امداد میں اضافہ، فیصلہ سازی میں خواتین کی برابر شرکت اور صنفی بنیاد پر تشدد، خصوصاً تنازعات میں جنسی تشدد کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔

یہ اجلاس 'خواتین، امن اور سلامتی' کے موضوع پر کونسل کی قرارداد 1325 (2000) کی 25ویں سالگرہ سے قبل ہوا۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اس قرارداد نے ایک سادہ لیکن اہم حقیقت کو واضح کیا کہ خواتین کی قیادت منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔

خواتین کی تنظیموں کے لیے خطرات

سیکرٹری جنرل نے 'خواتین، امن اور سلامتی' کے حوالے سے اپنی نئی رپورٹ میں گزشتہ 25 برس میں ہونے والی پیش رفت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اہم کامیابی یہ ہے کہ 100 سے زیادہ ممالک نے اس موضوع پر اپنے لائحہ عمل ترتیب دیے ہیں۔

لیکن ایسی کامیابیاں بہت نازک ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں کمی آ رہی ہے۔ دنیا میں عسکری اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں، مسلح تنازعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور خواتین کے خلاف بے رحمانہ تشدد بھی بڑھنے لگا ہے۔

عوامی زندگی میں سرگرم خواتین جیسا کہ سیاست دان، صحافی، اور انسانی حقوق کی کارکنان تشدد اور ہراسانی کا نشانہ بن رہی ہیں۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو منظم انداز میں عوامی زندگی سے خارج کیا جا ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں، سوڈان، ہیٹی، میانمار اور دیگر جگہوں پر خواتین اور لڑکیاں سنگین خطرات اور تشدد کا سامنا کر رہی ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اگرچہ خواتین کی تنظیمیں بحران زدہ علاقوں میں لاکھوں افراد کے لیے زندگی کی امید ہیں لیکن انہیں وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) کی حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں مقامی خواتین کی قیادت میں کام کرنے والی 90 فیصد تنظیمیں شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف اگلے چھ ماہ میں بند ہو سکتی ہیں۔

UN Photo/Eskinder Debebe
یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش ادارے کے صدر دفتر نیو یارک میں فروغ امن میں خواتین کے کردار پر لگی تصویری نمائش دیکھ رہے ہیں۔

یو این ویمن کی سربراہ سیما باحوث بھی ان کے ساتھ ہیں۔

قیام امن میں خواتین کی اہمیت

اس موقع پر 'یو این ویمن' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے واضح کیا کہ قرارداد 1325 کی 25ویں سالگرہ محض ایک رسمی تقریب نہیں ہونی چاہیے۔ تنازع کے درمیان زندگی گزارنے والی خواتین اور لڑکیاں صرف یادگاری تقریبات کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی مستحق ہیں۔

یہ ایک نئے عزم، نئی توجہ اور اس بات کو یقینی بنانے کا موقع ہونا چاہیے کہ آئندہ 25 سال گزشتہ 25 برسوں سے کہیں زیادہ موثر ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب غزہ میں ہولناک جنگ جاری ہے اور اب امن معاہدے کی صورت میں امید کی کرن دکھائی دے رہی ہے۔

آئندہ 25 سال کے لیے 'خواتین، امن اور سلامتی' کے ایجنڈے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مالی وسائل، مضبوط کوٹہ سسٹم اور احتساب کا موثر نظام نہایت ضروری ہے۔

سیما بحوث نے کہا کہ جنگ کے تمام تر ہولناک اثرات کے باوجود خواتین آج بھی امن قائم کرنے میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ مقامی سطح پر تشدد کا خاتمہ کرنے اور یمن، سوڈان، اور جمہوریہ کانگو سمیت مختلف خطوں میں امن کے لیے متحرک ہیں۔

سیکرٹری جنرل کی سالانہ رپورٹ کا جائزہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے قرارداد 1325 کو ایک ایسی کامیابی قرار دیا جس نے اس یقین سے جنم لیا کہ امن تب ہی پائیدار اور سلامتی تب ہی دیرپا ہو سکتی ہے جب مذاکرات کی میز پر خواتین موجود ہوں۔

6 اہم ترجیحات

سیما بحوث نے 'خواتین، امن اور سلامتی' کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لیے درج ذیل چھ ترجیحات پر زور دیا۔

  1. ایسے عملی اقدامات کیے جائیں جو خواتین کو قیام امن کے عمل میں ان کا جائز مقام دلائیں اور انہیں امن کار، ثالث اور انسانی حقوق کی محافظ کے طور پر مکمل مدد فراہم کی جائے۔
  2. ایجنڈے کی کامیابی کو صرف بیانات سے نہیں بلکہ اس بنیاد پر پرکھا جائے کہ کتنی خواتین براہ راست امن اور سلامتی کے عمل میں شامل ہیں اور انہیں انصاف، ازالے اور خدمات کی صورت میں کون سی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

  3. خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کا مکمل خاتمہ کیا جائے، ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والے نئی طرح کے تشدد کا مقابلہ کیا جائے اور خواتین کے خلاف نقصان دہ آن لائن اور آف لائن بیانیوں کا خاتمہ کیا جائے۔
  4. خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی اور سزا یقینی بنائی جائے، بین الاقوامی قانون کا احترام ہو اور جنگیں بند کی جائیں تاکہ حقیقی امن قائم ہو سکے۔

  5. خواتین، امن اور سلامتی کے ایجنڈے کو عام لوگوں کے اذہان و قلوب میں راسخ کیا جائے اور خاص طور پر نوجوانوں اور لڑکیوں میں اس شعور کو فروغ دیا جائے۔
  6. قرارداد 1325 کو تمام حالات اور تناظر میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔
UN Photo/Manuel Elías
خواتین اور امن و سلامتی کے موضوع پر سلامتی کونسل کے اجلاس کا ایک منظر

قرارداد 1325 کیوں اہم ہے؟

2000 میں سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد 1325 ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کا تحفظ یقینی بنانا، امن عمل میں ان کی شرکت کو بڑھانا اور انہیں امن کے لیے ایک موثر اور فیصلہ کن عنصر تسلیم کرنا ہے۔

یہ قرارداد امن و سلامتی کے معاملات میں خواتین کے اہم کردار کو تسلیم کرتی اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ خواتین پر جنگ و تنازعات کا اثر کم کیا جائے اور امن و جنگ دونوں حالات میں ان کے خلاف تشدد کا خاتمہ ہو۔

قرارداد 1325 خواتین کو کسی مسلح تنازع سے پہلے، دوران اور بعد میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی فریم ورک فراہم کرتی ہے جس کا مقصد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو مخصوص اور عملی اقدامات کی ترغیب دینا ہے۔

یہ قرارداد آج بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہے جتنی 25 سال پہلے تھی اور اس پر عملدرآمد کی رفتار میں اب مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

Live پاک افغان کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات