اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اکتوبر 2025ء) شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے بدھ کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ روس کے ساتھ شام کے تعلقات کو "نئی سمت" دینا چاہتے ہیں۔
گزشتہ برس کریملن کے اہم اتحادی بشار الاسد کی معزولی کے بعد سے شامی صدر کی اپنے روسی ہم منصب سے یہ پہلی ملاقات تھی، جہاں پوٹن نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
شام میں برسوں کی خونریز خانہ جنگی کے دوران احمد الشرع اور پوٹن مخالف فریقوں کے حامی تھے، جس میں پوٹن نے بشار الاسد کے کلیدی حامی ہونے کی حیثیت سے ان کے لیے اپنی زبردست فوجی طاقت کا بھی استعمال کیا۔
دوسری جانب احمد الشرع کے مسلح اسلام پسند گروپ نے باغی حملوں کی قیادت کی، جس نے بالآخر اسد کو اقتدار سے ہٹانے پر مجبور کر دیا۔
(جاری ہے)
کیا بات چیت ہوئی؟
شامی صدر کے دورے سے قبل ملک کے سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ان کے اس دورے کا مقصد "روس کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دینا" اور سیاسی اور اقتصادی تعاون کو بڑھانا ہے۔
کیمرے کے سامنے دونوں رہنماؤں نے پرجوش تبادلہ خیال کا اشارہ دیا، تاہم بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی بات چیت کے حوالے سے یہ توقع ہے کہ انہوں نے بشار الاسد کی حوالگی کے لیے ماسکو پر دباؤ ڈالا ہو گا، جو اپنی معزولی کے بعد وہاں سے فرار ہو کر روس پہنچے تھے اور کریملن نے انہیں پناہ دے رکھی ہے۔
ایک شامی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: "شرع روسی صدر سے ان تمام افراد کی حوالگی کی بات کریں گے، جنہوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور اب وہ روس میں ہیں، خاص طور پر بشار الاسد کی حوالگی ۔
"تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ روس اس سے اتفاق نہیں کرے گا۔ ان کے دورے سے قبل پیر کے روز روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ روس نے اسد کو سیاسی پناہ دی ہے، کیونکہ انہیں اور ان کے خاندان کو "جسمانی طور پر خاتمے کے خطرے کا سامنا" تھا۔
شام میں روس کے فوجی اڈے
دونوں رہنماؤں کے درمیان شام میں روس کے اہم فوجی اڈوں - طرطوس میں بحری اڈے اور حمیم میں فضائی اڈے کی حیثیت پر بھی بات چیت کی توقع تھی، جن کا مستقبل نئی حکومت کے بعد سے غیر یقینی ہے۔
البتہ شام کے صدر نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ روس کو شام میں اپنے فوجی اڈوں تک رسائی کی اجازت جاری رکھ سکتے ہیں۔
ملاقات کے آغاز میں الشرع نے اپنے بیان میں دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات کو تسلیم کیا، تاہم کہا کہ وہ ان رشتوں کو دوبارہ ترتیب دینا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ دمشق کو عالمی سطح پر تنہائی سے باہر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شرع نے پوٹن سے کہا کہ "ہم ان تعلقات کی نوعیت کو ایک نئے انداز میں بحال کرنے اور از سر نو متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ شام کی آزادی، خودمختار شام، اور اس کے علاقائی اتحاد اور سالمیت اور اس کی سکیورٹی کا استحکام حاصل ہو سکے۔"
پوٹن نے اس موقع پر کہا، "گزشتہ دہائیوں کے دوران، ہمارے ممالک نے خاص طرح کے تعلقات استوار کیے ہیں۔
"انہوں نے مزید کہا کہ ان کی بات چیت کے ایجنڈے میں "کچھ دلچسپ اور مفید کام" شامل ہیں اور روس "ان کی تکمیل کے لیے سب کچھ کرنے" کے لیے تیار بھی ہے۔
شرع نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شام تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے، تاہم "خاص طور پر روس کے ساتھ"۔
شام میں روس کے مفادات
روس
شام کے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع طرطوس پر اپنی بحری بندرگاہ اور حمیم فوجی اڈے تک رسائی جاری رکھنا چاہتا ہے۔شرع نے اس کی اجازت دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام اپنے دوطرفہ تعلقات کی "عظیم تاریخ میں طے پانے والے تمام معاہدوں کا احترام کرے گا۔"
اس کے بدلے میں وہ شام میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنے، اس کی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور روسی توانائی اور سرمایہ کاری تک رسائی کے ساتھ کمزور معیشت کو بچانے میں ماسکو کی مدد چاہتے ہیں۔
روس
کے سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ کے روز دونوں رہنماؤں کے درمیان ڈھائی گھنٹے سے زائد بات چیت جاری رہی اور ماسکو نے کہا کہ وہ شام کے خام تیل کی پیداوار میں اپنا کردار جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔نائب وزیر اعظم الیکسزانڈر نوواک نے سرکاری خبر رساں ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ "روسی کمپنیاں ایک طویل عرصے سے شام کے آئل فیلڈز پر کام کر رہی ہیں۔
" انہوں نے مزید کہا کہ کچھ نئے شعبے بھی ہیں جہاں ماسکو "شرکت کے لیے تیار" ہے۔نوواک نے کہا کہ "ہماری کمپنیاں ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے نظام کی بحالی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔"
روسی وزراء کا کہنا ہے کہ وہ شام کو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات پہنچانے نیز تباہ شدہ بجلی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی مرمت میں مدد کے لیے تیار ہیں۔ تاہم ماضی کی تلخ یادوں کے سبب مسکراہٹوں کے درمیان تناؤ بھی برقرار ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ