اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اکتوبر 2025ء) کئی سیاسی ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ، سرحدی علاقوں میں دہشت گردی اور پشتون باشندوں کی علاقائی رقابتیں مل کر پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات کو ایک ایسے نازک موڑ پر لے آئے ہیں، جہاں نہ صرف پاکستان کا داخلی امن بلکہ پورے خطے کی سلامتی بھی سنگین خطرے میں ہے۔
ڈیورنڈ لائن کس طرح وجود میں آئی؟
معروف تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے اس تاریخی پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ 1893ء میں افغان امیر عبدالرحمان خان اور برٹش انڈیا کے نمائندے مورٹیمر ڈیورنڈ کے مابین ہونے والے ایک معاہدے کے تحت افغانستان اور اس برطانوی نوآبادی کے درمیان سرحد کا تعین کیا گیا، جو بعد میں ''ڈیورنڈ لائن‘‘ کہلائی۔
(جاری ہے)
امیر عبدالرحمان خان نے اسے افغانستان کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے بعد ازاں اپنی سوانح حیات میں لکھا تھا کہ پہلی بار ان کے ملک کی سرحدیں باضابطہ طور پر طے ہو گئیں۔ ساتھ ہی اس افغان امیر نے قبائلی سرداروں کو اس معاہدے کے احترام اور اس پر عمل درآمد کی ہدایت بھی کی تھی۔
کیا پاک افغان سرحد پر جنگ بندی پائیدار ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر
رسول بخش رئیس نے بتایا کہ 1893ء سے 1946ء تک کسی بھی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ قرار نہیں دیا تھا۔ بعد ازاں راولپنڈی معاہدے (1919ء) سمیت مختلف ادوار میں کئی دیگر معاہدے بھی ہوئے، لیکن کسی میں بھی ڈیورنڈ لائن پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا۔عبدالغفار خان کا متنازعہ بیان اور پاکستان کا موقف
ڈاکٹر
رسول بخش رئیس نے تاریخی حقائق کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 1946ء میں جب قیام پاکستان کی تیاریاں جاری تھیں، تو خان عبدالغفار خان کابل گئے تھے اور وہاں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سرحدی علاقے یا تو آزاد رہیں یا پھر افغانستان میں شامل ہو جائیں، مگر پاکستان کا حصہ نہ بنیں۔ تاہم ''ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور تقسیم ہند کے بعد یہ علاقے پاکستان میں شامل ہو گئے تھے۔‘‘پاکستانی اور افغان فورسز میں جھڑپیں، ہلاکتوں کی اطلاعات
ڈاکٹر
رئیس کے مطابق 1893ء کے معاہدے کے بارے میں پاکستانی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحد ہے، جس کا دوبارہ تعین نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی بھی جانشین ریاست اپنی پیش رو ریاست کے طے کردہ معاہدوں کی وارث ہوتی ہے، اس لیے پاکستان بھی برطانوی ہند کا جانشین ہونے کے وجہ سے ڈیورنڈ معاہدے کا وارث ہے۔انہوں نے کہا، ''اگرچہ بعض افغان دانشور برطانوی نوآبادیاتی دور کی سرحدوں کے ازسرنو تعین کے حامی ہیں، تاہم ان کا یہ نقطہ نظر نہ تو کوئی قانونی حیثیت رکھتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی برادری کی طرف سے اسے قبول کیا گیا ہے۔
‘‘خطے کی پیچیده حقیقت
کئی تجزیہ کار تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے ریاستی تعلقات ایک بار پھر اپنی تاریخ کے بدترین مرحلے میں ہیں، اور ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ اپنی تاریخی، سیاسی اور نسلی جہتوں کے ساتھ آج بھی اس خطے کی پیچیدہ ترین حقیقتوں میں سے ایک ہے۔
پاکستان، افغانستان جھڑپیں: ٹرمپ اور ایران کی ثالثی کی پیشکش
سلامتی امور کے تجزیہ کار محمد عامر رانا کا کہنا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان، افغانستان اور بالواسطہ طور پر بھارت کے درمیان ایک بڑا تنازعہ ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے اسے تقریباً ایک باضابطہ بین الاقوامی سرحد کی شکل دے دی ہے، جہاں باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ 750 سے زائد چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔عامر رانا کے بقول افغانستان اپنی کمزور سیاسی اور اسٹریٹیجک حیثیت کے باعث اس سرحدی تنازعے کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور کابل کی طرف سے پاکستانی طالبان کی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کی حمایت بھی موجودہ غیر یقینی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
ڈیورنڈ لائن سے متعلق افغان موقف
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر سائرہ عاقل نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قانونی طور پر نوآبادیاتی دور کے بعد بننے والی آزاد ریاستیں اپنی سابقہ سرحدیں برقرار رکھتی ہیں۔ لہٰذا یہ 'لائن‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک قانونی بین الاقوامی سرحد ہے، جس کی 1947ء میں عالمی سطح پر توثیق بھی ہو گئی تھی۔
تاہم افغانستان کا موقف یہ ہے کہ 1893ء کا معاہدہ دباؤ میں طے پایا تھا اور اسی لیے موجودہ افغانستان اسے تسلیم نہیں کرتا۔پاکستان
کے 58 فوجی ہلاک کر دیے، افغانستان کا دعویٰپاک افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار طاہر خان کے مطابق، ''افغان طالبان ڈیورنڈ لائن کو فرضی سرحد قرار دیتے ہیں جبکہ پاکستان اسے بین الاقوامی سرحد مانتا ہے۔
اب موجودہ کشیدگی کی اصل وجہ پاکستانی طالبان کی بڑھتی ہوئی مسلح سرگرمیاں بھی ہیں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حامی عناصر بھی ہیں اور اس سرحد سے متعلق اختلاف رائے بہرحال اب ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔‘‘علاقائی سلامتی کے لیے چیلنج
تجزیہ کار طاہر خان کے مطابق علاقائی صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ماسکو فارمیٹ، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور تنظیم برائے اقتصادی تعاون (ای سی او) جیسے فورمز میں افغانستان میں دوبارہ سرگرم شدت پسند گروہوں — جیسے القاعدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان — کے بارے میں گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
ان گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے خطرہ ہیں، جبکہ افغان طالبان کی جانب سے ان شدت پسند گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کا نہ کیا جانا مستقبل میں خطے کی مجموعی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘پاکستان: ٹی ٹی پی کا حملہ، لیفٹیننٹ کرنل، میجر سمیت 11 فوجی اہلکار ہلاک
افغان امور کے ماہر ڈاکٹر عبدالشکور کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی اور میڈیا طالبان حکومت کے موقف سے اختلاف کر رہے ہیں، جو ملک میں داخلی استحکام کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
ان کے بقول، ''اگر پاکستان اور افغانستان نے اپنے اپنے سفارتی اور سیاسی ذرائع مؤثر طور پر استعمال نہ کیے، تو موجودہ کشیدگی خطے میں پہلی سے پائی جانے والی بے یقینی اور بداعتمادی میں اضافے کا سبب بنے گی۔‘‘بھارت کا 'دوسرا محاذ‘
ممتاز تجزیہ کار آصف درانی نے پاک افغان تنازعے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایک 'دوسرا محاذ‘ قائم کرنے کے لیے افغانستان کو استعمال کرتا ہے اور ''مالی امداد اور سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے ایسے عناصر کی حمایت کرتا ہے، جو پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کریں۔
‘‘ آصف درانی کے الفاظ میں، ''بھارت کو افغان عوام سے کوئی حقیقی ہمدردی نہیں۔ وہ صرف اپنے مفادات کے لیے افغان گروپوں کو استعمال کرتا رہا ہے۔‘‘افغانستان
سے سرگرم دہشت گرد گروہ سب سے بڑا خطرہ، پاکستانافغان امور کے ماہر ڈاکٹر عبدالشکور کہتے ہیں کہ موجودہ پاک افغان کشیدگی کی بنیاد صرف ڈیورنڈ لائن ہی نہیں بلکہ باہمی اعتماد کے فقدان، سکیورٹی خدشات اور خطے کی بدلتی ہوئی اسٹریٹیجک ترجیحات بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ''دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ اعتماد اور بداعتمادی کے درمیان ہی رہے ہیں۔ کابل میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اور توقعات کے برعکس افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس بنا پر بھی دوطرفہ تعلقات کشیدہ تر ہو گئے۔‘‘ادارت: مقبول ملک