لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2025ء) امیر
جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری نے کہا ہے کہ
ووٹ کو عزت دو کے خوش کن اور دل فریب نعروں سے
ووٹ کی عزت و آبرو کی پامالی کا سفر فارم 47سے لے کر آج تک جاری ہے،موجودہ حکومتی اتحاد جو پی ڈی ایم کی شکل میں معرض وجود میں آیا تھا اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے،خاص طور پر زراعت اور کسان کا جس بے دردی سے استحصال کیا گیا،اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی،
سیلاب،موسمیاتی تبدیلیاں اور ظالمانہ حکومتی پالیسیوں نے
پنجاب کے کاشتکاروں کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔
لاہورپریس کلب میں
ڈاکٹر بابر رشید،ذکر اللہ مجاہد، نصر اللہ گورائیہ، رشید منہالہ ، چوہدری منظورحسین،محمدفاروق چوہان اور عمران الحق کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
جماعت اسلامی پنجاب کسانوں کے
معاشی قتل عام اور حکومت کی کسان دشمن پالیسی کے خلاف 26تا28اکتوبر کو
لاہور سے کسان بچاو،
پاکستان بچاو روڑ کارواں کا آغاز کرے گی۔
(جاری ہے)
کارواں پہلے دن
لاہور سے اوکاڑہ کے لئے روانہ ہو گا،جگہ جگہ استقبال اور قائدین خطاب کریں گے۔ دوسرے دن 27اکتوبر کو بروز پیر روڑ کارواں
لاہور سے (نوشہرہ ورکاں)گوجرانوالہ جائے گا۔ تیسرے دن روڑ کارواں ننکانہ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جائے گا،27اکتوبر کو نوشہرہ ورکاں گوجرانوالہ اور 28اکتوبر کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں امیر
جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کسان بچائو
،پاکستان بچائو روڑ کارواں سے خطاب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجو دہ حکمرانوں نے شعبہ زراعت جو کہ
پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔ رہی سہی کسر
سیلاب نے پوری کر دی ہے۔اس
سیلاب نے کسانوں کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے پہلے ہی گندم کی صحیح قیمت نہ ملنے سے کسانوں کی کمر ٹوٹ گئی چکی ہے۔ وزارت غذائی تحفظ کی رپورٹ کے مطابق
پنجاب میں
سیلاب سے 24لاکھ ایکٹر پر فصلیں تباہ ہوئیں جبکہ مجموعی طور پر کپاس کو 5.2فیصد، گنے کی فصل کو 13چاول کی فصل کا 15.5فیصد
نقصان ہوا۔
ملک کی معیشت کو
سیلاب سے 744ارب روپے کا
نقصان پہنچا، ایک ہزار 37افراد
جاں بحق، ایک ہزار 68زخمی ہوئے، زرعی شعبہ سب سے زیادہ متاثر، 439ارب روپے کا
نقصان ہوا۔ 70اضلاع میں زندگی مفلوج، 65لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ فصلیں تباہ اورکسان عملا بدحال ہو گئے ہیں
۔سیلاب نے کئی فٹ مٹی چھوڑ دی ہے جس کو ہموار کرنا کاشتکاروں کے بس کی بات نہیں۔کسی بھی قسم کی کاشتکاری کیلئے زمینوں کو ہموار کرنا بڑا چیلنج ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ زرعی ایمرجنسی نافذ کرکے شعبہ زراعت کو وافر فنڈز دئیے جائیں۔صوبہ
پنجاب سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہواہے اور شعبہ زراعت و کسان اس کے بڑے متاثرین ہیں۔لائیو سٹاک،حویلیاں گھر تباہ ہوگئے۔سب سے زیادہ چاول کپاس کی فصل متاثر ہوئی۔ ایک جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہان و ذمہ داران عوام کو ریلیف دینے اور بالخصوص کاشتکاروں کیلئے خصوصی پیکیج لانے کے اعلانات کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کام سست روی کا شکار ہے،جس سے کسانوں میں مایوسی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پاکستان میں کپاس کی پیداوار 2024-25کے سیزن میں ہدف سے 41فیصد کم ہوئی ہے جو کہ متوقع 10.87ملین گانٹھوں کے مقابلے میں صرف 6.42ملین گانٹھوں تک محدود رہی ہے۔ کپاس
پاکستان کی دوسری سب سے بڑی نقدآور فصل اور اس سے ٹیکسٹائل صنعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو ملکی
برآمدات سے حاصل ہونے والے
زرمبادلہ کا تقریباً 60فیصد فراہم کرتی ہے۔ قوم پوچھتی ہے کہ 2024ء میں جب
پنجاب کے کسان کی گندم تیار تھی، تو
یوکرائن سے 35لاکھ ٹن گندم کس نے اور کیوں منگوائی او رصرف دوسالوں میں کسانوں کے 2200ارب روپے کے خسارے کا ذمہ دار کون ۔
مالی سال 2025ء میں تمام اہم فصلوں کی مجموعی پیداوار میں 13.49فیصد تک کمی آچکی ہے جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔گندم کو ڈی ریگولیٹ کر کے 3000روپے فی من ریٹ مقرر کر کے مخصوص طبقے کو نوازا گیا۔فوڈ سیکیورٹی قوانین کے مطابق ملک میں 28لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ ہونا چاہیے لیکن اس وقت صرف 8لاکھ ٹن گندم باقی ہے۔کپاس کی پیداوار میں 5.55ملین گانٹھوں کی کمی سے ٹیکسٹائل انڈسٹری جبکہ حالیہ
سیلاب نے چاول کی کاشت کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔
سونا یوریا 4,500 روپے جبکہ ڈی اے پی 14,500روپے میں بک رہی ہے، زرعی ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔مالی سال 2025میں شوگر ایکسپورٹ کر کے مصنوعی
قلت پیدا کر کے 300ارب روپے لوٹنے والوں کا حساب ہونا چاہئے۔ بد قسمتی سے آج ہر پاکستانی تین لاکھ 18ہزار 252روپے کا مقروض ہے۔ مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے کہا کہ
سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔
سیلاب سے متاثر کسانوں کی اگلی فصل کے لیے بیچ اور کھاد مفت فراہم کی جائے
۔سیلاب سے متاثر کسانوں کو فی ایکڑ 40ہزار روپے کا ریلیف پیکیج دیا جائے۔ کھا دوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں 50فیصد کمی کی جائے۔زرعی ٹیوب ویلوں کی
بجلی کی قیمت 10روپے فی یونٹ کی جائے
۔سیلاب زدہ علاقوں کے 6ماہ کے
بجلی کے بل معاف کیے جائیں۔کسانوں سے گندم کی قیمت خرید 4500روپے اور شہریوں کے لیے روٹی کی قیمت 10روپے مقرر کی جائے۔