اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اکتوبر 2025ء) القاعدہ سے وابستہ مختلف گروہ، بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کی حمایت گروپ (جے این آئی ایم) اور اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کے حملےاب تقریباً پورے مالی اور برکینا فاسو تک پھیل چکے ہیں اور مغربی نائیجر سے لے کر نائجیریا اور سینیگال کی سرحد تک سرگرم ہیں۔ حالیہ برسوں میں اپنے حملوں کا دائرہ دوگنا کر دیا ہے اور اب وہ اسپین کے رقبے سے دو گنا زیادہ علاقے میں سرگرم ہیں۔
یہ نتیجہ اے ایف پی کے چھ سالہ مطالعے سے اخذ کیا گیا ہے، جو اے سی ایل ای ڈی کے فراہم کردہ ریکارڈز پر مبنی ہے ۔ یہ ایک آزاد تنظیم ہے جو دنیا بھر میں مسلح تنازعات کے متاثرین کا ڈیٹا جمع کرتی ہے۔
ایلڈیباران تھریٹ کنسلٹنٹس کے تجزیہ کار چارلی ویرب نے خبردار کیا، ''ساحل کا سکیورٹی بحران انتہائی پیچیدہ ہے، اور اس کا کوئی فوری حل نہیں۔
(جاری ہے)
تقریباً 30 ہزار حملے
اس خطے میں حملوں کی تعداد 2019 میں 1,900 سے بڑھ کر 2024 میں 5,500 سے تجاوز کر گئی۔
رواں سال، 10 اکتوبر تک، مزید 3,800 حملے ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ یوں چھ برسوں میں کل حملوں کی تعداد 28,715 تک پہنچ گئی۔
القاعدہ
کا اثر مغربی مالی اور جنوبی برکینا فاسو تک پھیل چکا ہے، جبکہ اسلامک اسٹیٹ مغربی نائیجر اور نائجیریا میں قدم جما چکا ہے۔اب جہادی گروہ ایک ایسے علاقے میں سرگرم ہیں جس کا رقبہ 10 لاکھ مربع کلومیٹر یعنی اسپین کے دوگنے سائز کے برابر ہے۔
ایک دوسرا بڑا جہادی گڑھ نائجیریا کے مشرق میں جھیل چاڈ کے نزدیک ہے، جہاں بوکو حرام اور اسلامک اسٹیٹ ویسٹ افریقہ پروونس (آئی ایس ڈبلیو اے پی) سرگرم ہیں۔
اقوام متحدہ
کے مطابق، القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی تعداد 7,000 سے 9,000 کے درمیان ہے، جبکہ آئی ایس ڈبلیو اے پی کے 8,000 سے 12,000 کے درمیان جنگجو فعال ہیں۔یہ گروہ متاثرہ خطوں میں نسلی اور سماجی تنازعات کا فائدہ اٹھا کر نئے افراد بھرتی کرتے ہیں، جو دنیا کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔
یہ گروہ مالی وسائل حاصل کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان، مویشیوں کی چوری، اور 'اسلامی ٹیکس‘ جیسے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
ساحل کے سکیورٹی انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی تونکارا نے اے ایف پی کو بتایا ''کچھ افراد مخصوص آپریشنز کے لیے کرائے پر بھرتی کیے جاتے ہیں، کچھ کو مالِ غنیمت رکھنے کے وعدے پر شامل کیا جاتا ہے، اور بعض مذہبی بنیادوں پر ذہنی طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔
‘‘77 ہزار ہلاکتیں
اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ سے وابستہ گروہ، جو زیادہ تر لوٹے گئے ہتھیاروں سے لیس ہیں، 2019 سے اب تک تقریباً 76,900 ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں، جن میں ان کے اپنے جنگجو بھی شامل ہیں۔
زیادہ تر اموات فوجی جھڑپوں میں ہوئیں، جبکہ 16 ہزار کے قریب شہری ان کے حملوں میں مارے گئے۔
نائجیریا میں اب تک 20 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن مالی اور برکینا فاسو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جہاں خطے کے 56 فیصد ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق ہے۔
دونوں ممالک اس وقت فوجی حکومتوں کے زیرِ اقتدار ہیں، جنہوں نے حالیہ برسوں میں فرانسیسی اور مغربی افواج کی موجودگی ختم کر دی ہے۔
تجزیہ کار ویرب کے مطابق، ان حکومتوں نے اپنی حکمتِ عملی صرف فوجی طاقت پر مرکوز رکھی، جس کے نتائج ''زیادہ سے زیادہ محدود، اور بدترین صورت میں نقصان دہ‘‘ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہادی اثر و رسوخ کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ معاشی اور سماجی مسائل کو حل نہ کرنا ہے۔
دارالحکومتوں کا محاصرہ
القاعدہ
سے منسلک جے این آئی ایم کے حملوں کے نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ گروہ مالی اور برکینا فاسو کے دارالحکومتوں کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ مرکزی حکومتوں پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔سن دو ہزار انیس سے اب تک گروہ نے شمالی برکینا فاسو سے اپنے حملوں کا دائرہ بڑھایا ہے اور اب واگاڈوگو کو گھیرے میں لے لیا ہے، جس سے آئیوری کوسٹ، ٹوگو، اور مالی کے ساتھ رابطے خطرے میں ہیں۔
مالی کے دارالحکومت بماکو کے ارد گرد، جو چار سال پہلے نسبتاً محفوظ تھا، صرف 2025 میں 130 حملے کیے گئے، جو 2021 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہیں۔
اسٹریٹیجک حملے
جے این آئی ایم اب مغرب کی سمت بھی پیش قدمی کر رہا ہے، اور کایس کے علاقے میں اس سال پچھلے پانچ برسوں کے مقابلے میں زیادہ حملے ہوئے ہیں۔
یہ علاقہ، جو سینیگال، موریتانیا اور گنی کی سرحدوں سے متصل ہے، مالی کے لیے غذائی اور ایندھن کی فراہمی کا اہم راستہ ہے کیونکہ ملک کی سمندر تک براہِ راست رسائی نہیں۔
جے این آئی ایم ستمبر سے مغرب سے آنے والے ان ٹینکر ٹرکوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو بماکو کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے مالی کے قومی دفترِ مصنوعاتِ پٹرولیم نے بتایا کہ ایک ماہ کی ناکہ بندی کے بعد ملک کے ایندھن کے ذخائر ختم ہونے کے قریب ہیں۔
تھِنک ٹینک ٹمبکٹو انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بکری سامبے نے کہا، ''کایس مالی کے لیے ایک اسٹریٹیجک اقتصادی راہداری ہے، جو اسے براہِ راست ڈکار کی بندرگاہ سے جوڑتی ہے۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''کایس کو نشانہ بنانا موجودہ حکومت کی صلاحیت کو کمزور کرنے کا طریقہ ہے تاکہ وہ بماکو کو مؤثر طور پر سپلائی نہ کر سکے۔‘‘
سامبے نے سینیگال اور موریتانیا کو مشورہ دیا کہ وہ ''اس خطرے کا مکمل اندازہ لگائیں‘‘۔
یکم جولائی کو سات مغربی شہروں، بشمول کایس، اور پڑوسی ممالک سے ملانے والی شاہراہوں پر مربوب حملے کیے گئے۔
ادارت: صلاح الدین زین