جاپانی وزیراعظم کو کبھی کبھار برتن تک دھونے پڑتے ہیں، آکی آبے، کبھی کبھاراس قدر مصروف ہوتی ہوں کہ گھر کے کام شوہر کو کرنا پڑتے ہیں۔ وزیراعظم آبے کو کوڑا کرکٹ پھینکنے بھی جانا پڑتا ہے،جاپانی وزیراعظم کی اہلیہ کی گفتگو

ہفتہ 6 ستمبر 2014 08:38

ٹوکیو (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6ستمبر۔2014ء)جاپانی وزیراعظم کی اہلیہ آکی آبے نے کہا ہے کہ کبھی کبھار وہ اس قدر مصروف ہوتی ہیں کہ گھر کے کام اْن کے شوہر کو کرنا پڑتے ہیں۔ وزیراعظم آبے کو گھر میں بعض مرتبہ برتن دھونے پڑتے ہیں اور کوڑا کرکٹ پھینکنے بھی جانا پڑتا ہے۔جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کی اہلیہ آکی آبے نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اْن کے شوہر انہیں زیادہ سے زیادہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کا کہتے ہیں اور اس کے لیے وقت بھی دیتے ہیں۔

ان کے بقول وہ چاول اگانے کی تقریبات میں شرکت سے لے کر ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے نکالی جانی والی ریلیوں میں بھی شرکت کرتی ہیں۔ آکی آبے کا کہنا ہے کہ اْن کے شوہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قدامت پسند سوچ کے مالک ہیں لیکن جہاں تک ممکن ہو وہ گھریلو کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔

(جاری ہے)

” کبھی کبھار وہ گھر میں چیزیں اِدھر اْدھر رکھ دیتے ہیں اور پھر میں انہیں چیزیں صحیح جگہ پر رکھنے کا کہتی ہوں۔

جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے خواتین کو مختلف شعبوں میں آگے لانے کے لیے ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں وہ مختلف کمپنیوں اور سرکاری دفاتر پر زور دے رہے ہیں کہ وہ خواتین کو اپنے ہاں زیادہ سے زیادہ نوکریاں دیں۔ اس تناظر میں ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے کابینہ میں بھی رد و بدل کرتے ہوئے اپنی ٹیم میں مزید تین خواتین وزراء کو شامل کیا ہے۔

اس طرح 18 رکنی کابینہ میں خواتین وزراء کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔ جاپانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 2020ء تک ملک کے تیس فیصد اہم عہدوں پر خواتین کو فائز کیا جائے گا۔ اس طرح آبے اپنے ہدف سے قریب آ گئے ہیں۔52 سالہ آکی آبے مزید بتاتی ہیں کہ بعض اوقات وہ پورا پورا دن گھر سے باہر رہتی ہیں، جس کی وجہ سے گھر کا کام باقی رہ جاتا ہے۔ ان کے بقول کبھی کبھار وزیراعظم بڑبڑاتے ہوئے بکھرے ہوئے گھر کی شکایت تو کرتے ہیں لیکن حکم صادر کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک میں خواتین مردوں سے زیادہ اور سخت کام کرتی ہیں لیکن انہیں اس طرح سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ معاشرے کو چاہیے کہ وہ بچے کی پرورش یا اْن تمام واقعات کے بعد، جن سے خواتین کے معمولات زندگی میں تعطّل آ جاتا ہے، اْنہیں دوبارہ سے کام کرنے کا موقع اور اجازت دیں۔جاپان میں بڑی بڑی کمپنیوں، سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں کے اعلی عہدوں پر انتہائی پڑھی لکھی خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس کے علاوہ تنخواہوں، ترقی اور دیگر سہولیات کے حوالے سے بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان میں بچوں کی پرورش کے حوالے سے نا مناسب اقدامات اور شوہروں کا عدم تعاون بھی خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

متعلقہ عنوان :