بلوچ باغی تنظیموں کے مابین جھڑپیں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 34 ہلاک،28زخمی ، سرچ آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے باغیوں میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا بھائی اور بھانجا بھی شامل ہیں، فرنٹیئر کور بلوچستان کا دعویٰ

بدھ 1 جولائی 2015 08:51

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔یکم جولائی۔2015ء)بلوچستان کے تین مختلف اضلاع ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور آواران میں حکومت مخالف بلوچ باغی گروپوں کے مابین جھڑپوں اور سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں کم از کم چونتیس افراد ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق فرنٹئرکور بلوچستان نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے شورش زدہ ضلع آواران میں سرچ آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے باغیوں میں کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا بھائی اور بھانجا بھی شامل ہیں۔

اس کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز نے باغیوں کے پانچ ٹھکانے بھی تباہ کئے ہیں اور وہاں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود قبضے میں لیا گیا ہے۔ دوسری جانب وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی کے بقول شورش زدہ ضلع ڈیرہ بگٹی اور کوہلو میں آزادی پسند کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ یونائٹڈ آرمی کے عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپیں پیر اور منگل کی درمیانی شب شروع ہوئی تھیں جو کہ تاحال جاری ہیں۔

(جاری ہے)

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ”بی ایل اے اور یو بی اے کے شدت پسند ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کر رہے ہیں۔ اس فائرنگ کے دوران دونوں متحارب گروپوں کو شدید جانی اور مالی نقصان پہنچا ہے۔ اب تک بیس شدت پسندوں کی ان جھڑپوں میں ہلاکت جبکہ پندرہ کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

باغی ہلاک شدگان کی لاشیں اٹھا کر اپنے علاقوں میں لے گئے ہیں۔ مسلح جھڑپوں سے مقامی آبادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ضلع آواران میں مشکے بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا آبائی علاقہ ہے۔ اس علاقے کو بی ایل ایف کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ضلع کوہلو متوفی بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری جبکہ ڈیرہ بگٹی، فوجی آپریشن میں ہلاک ہونے والے نواب اکبر بگٹی کا آبائی علاقہ ہے۔ بلوچستان میں بلوچ مسلح بغاوت کا آغاز سب سے پہلے انہی علاقوں سے ہوا تھا۔

متعلقہ عنوان :