ذکی الرحمان لکھوی کے مقدمے میں بطور پراسیکیوٹر تقرر کئے گئے دو وکلاء کو 6 کروڑ روپے کی تاحال عدم ادائیگی پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے تذبذب کا شکار

اتوار 2 اگست 2015 10:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2 اگست۔2015ء)انسداد دہشتگردی عدالت میں ممبئی حملہ کیس کے مبینہ مرکزی ملزم ذکی الرحمان لکھوی کے مقدمے میں بطور پراسیکیوٹر تقرر کئے گئے دو وکلاء کو 6 کروڑ روپے کی تاحال عدم ادائیگی پر وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے تذبذب کا شکار نظر آ رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر التواء لکھوی کے مقدمے کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت کئی ماہ سے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے تاہم گزشتہ دسمبر 2014ء میں عدالت کی طرف سے ذکی الرحمان لکھوی کو ضمانت پر رہا کئے جانے پر یہ بھارتی تنقید طوالت اختیار کر گئی۔

رواں سال جنوری میں حکومت نے اس مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے دو ماہر وکلاء مصباح الحسن قاضی‘ جسٹس (ر) اکرم قریشی کی بطور پراسیکیوٹر خدمات حاصل کیں جنہوں نے ممبئی حملہ کیس کے مقدمے کیلئے 6 کروڑ روپے بطور فیس طلب کئے گئے جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے دوبوں وکلاء کو 20 لاکھ روپے دینے کی پیشکش کی گئی۔

(جاری ہے)

بعد ازاں ایف آئی اے نے یہ معاملہ وزارت داخلہ کو بھجوایا۔

وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی جانب سے پیش کردہ رقم پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وزارت اس قدر بھاری رقم کی ادائیگی سے قاصر ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سمری کو اس کے بعد وزارت قانون کوبھی بھجوا دی گئی ہے تاہم وزارت قانون اس معاملے پر حتمی رائے دینے سے پہلے وزارت خزانہ سے رابطہ کر سکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جب وزیراعظم کے معاون خصوصی قانون اشتر و اوصاف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ممبئی حملہ کیس کے پراسیکیوٹر کی عدم ادائیگی کی کوئی فائل یا دستاویزات ان کی نظروں سے تاحال نہیں گزرے۔

تاہم وزارت قانون ضابطہ اخلاق کے مطابق اس معاملے کو نمٹائے گی۔ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ذرائع کے مطابق ایف آئی اے تاحال وکلاء کی بھاری رقم ادائیگی پر تذبذب کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے زیر سماعت مقدمے کے لئے ایک پراسیکیوٹر کو 10 لاکھ اور روزانہ کی بنیاد پر ٹی اے ڈی اے کے ساتھ 35 ہزار دینے کے معاہدے پر 2 مزید پراسیکیوٹر کی خدمات حاصل کی ہیں۔

دوسری جانب میڈیا کی طرف سے مصباح الحسن قاضی کو فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے تاحال عدم ادائیگی پر پوچھے گئے سوال پر انہوں نے معذرت کر لی۔ یہ امردلچسپ ہے کہ جب دو پراسیکیوٹر کی پہلے سے عدالت میں زیر التواء مقدمات کی سماعت کے لئے حکومت نے خدمات حاصل کر رکھی ہیں تو دو مزید پراسیکیوٹر جن میں محمد اظہر چوہدری اور سید ابو طاہر حسن پیرزادہ کو کو کیوں شامل کیا گیا۔