مری معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا تو مسلم لیگ ن کے ارکان بغاوت کرلیں گے ، سیاسی تجریہ نگار،گزشتہ ڈھائی سالوں سے منتخب مسلم لیگ ن کے ارکان مسلسل نظر انداز ہوتے رہے ہیں جس سے ان کے حلقوں میں بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں، وہ اپنے حلقوں کی عوام کی حمایت لینے کے لئے بھی مجبورا معاہدے کی خلاف ورزی پر بغاوت کرلیں گے ،بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ 22، ارکان کی طاقت رکھنے کے باوجود ن لیگ کو اپوزیشن میں دھکیل دیا گیا ہے،بیا ن

جمعہ 27 نومبر 2015 09:16

ڈیرہ اللہ یار(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27نومبر۔2015ء)مری معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا تو مسلم لیگ ن کے ارکان بغاوت کرلیں گے ، گزشتہ ڈھائی سالوں سے منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے ارکان مسلسل نظر انداز ہوتے رہے ہیں جس سے ان کے حلقوں میں بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں او ر وہ اپنے حلقوں کی عوام کی حمایت لینے کے لئے بھی مجبورا معاہدے کی خلاف ورزی پر بغاوت کرلیں گے بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ 22، ارکان کی طاقت رکھنے کے باوجود ن لیگ کو اپوزیشن میں دھکیل دیا گیا ہے ۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کی رپورٹ کے مطابق سیاسی تجریہ نگاروں نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مری معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہو ا تو بلوچستان حکومت میں شدید بحران پیدا ہوجائے گا اور مسلم لیگ ن کے اراکین بغاوت کرکے تحریک عدم اعتماد لاکر حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے بعض سیاسی تجریہ نگاروں نے ماضی کے حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ مرکز میں ن لیگ کی کوئی نئی روایت نہیں ہے بلکہ بلوچستان میں ن لیگ اپنے ہی معاہدے کی یہ تیسری مرتبہ خلاف ورزی کررہاہے ، 1990میں مسلم لیگ ن نے بلوچستان میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایاجارہاتھا جو اس وقت کے اراکین اسمبلی نواب ذوالفقار علی مگسی، مرحوم میر تاج محمد خان جمالی ،میر جان محمد خان جمالی ، نواب ثناء اللہ زہری ، عبدالغفور حیدری اور سعید ہاشمی نے مل کر اس وقت کے گورنر جنرل محمد موسیٰ کو درخواست دے دی کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا تو وہ بلوچستان ہائیکورٹ سے رجو ع کریں گے اس کے بعد بلوچستان اسمبلی کا فوری طور پر اجلاس بلایا گیا تھا مرکز کی ن لیگ نے یہی تاریخ 1997میں بھی دہرادی ، جب بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے 11، ارکان منتخب ہوکر آئے تھے اور باآسانی حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھے تو ن لیگ کے ارکان کو نظرانداز کرکے دوسری جماعت کی حکومت بنادی گئی ، اور 2013کے انتخابات میں اب وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے کہ مسلم لیگ ن کے ارکان کی بھاری اکثریت کے باوجود انھیں حکومت سے مرکز باہر رکھنے کی کوشش کررہاہے مرکز کے اس فیصلے سے مسلم لیگ کے اراکین میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے اور وقت قریب آنے کے ساتھ ہی کوئی بڑا فیصلہ کرنے جارہے ہیں جس میں مسلم لیگ ن کے ارکان بغاوت کرکے اپنی حکومت بنانے میں منصوبہ بندی تیار کرلیں گے ۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ ن کے بعض اراکین اسمبلی سے جب اس بارے میں رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلوچستان حکومت کے کاغذات ریکارڈ پر ہیں کہ پی ایس ڈی پی کے فنڈز میں مسلم لیگ ن کے اراکین کو نظر انداز کرکے 70سے 80فیصد کا فنڈز دوسری جماعت والے اپنے علاقوں میں لے گئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے اراکین کے پاس پی ایس ڈی پی میں صرف 20سے 25فیصد فنڈز دئیے گئے ہیں مرکز کی اس زیادتیوں کو کبھی نہیں نظرانداز کیاجاسکتا کہ سندھ اور بلوچستان میں اپنے ہی اراکین سے اس طرح کا رویہ کیوں رکھا جارہاہے جب وہ اپنے حلقوں سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوکر اسمبلیوں تک پہنچے ہیں اور اب وہ عوام کے سامنے کیاجوابدہ ہونگے بعض اراکین نے یہ بھی بتایا کہ کوئٹہ میں میئر شپ مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے جیت رہی تھی مگر وہاں پر بھی مسلم لیگ ن کو نظرانداز کرکے دوسری جماعت کو میئر شپ دی گئی اس فیصلے پر بھی مسلم لیگ ن کے ارکین شدید نالاں ہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مرکز نے اگراپنی یہ روش تبدیل نہیں کی تو اس سے بلوچستان میں بہت بڑا بھونچال پیدا ہوسکتا ہے جسے بعد میں انھیں قابو کرنا بڑے مسائل پیدا کرے گا مرکز کو چاہیے کہ جس نے اپنے ہی تین مرتبہ 1990,1997اور اب 2013کے انتخابات میں اپنے ہی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہیٹرک بنالی ہے اور اب ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اگر یہی فیصلہ برقرار رہا تو آنے والے انتخابات میں بلوچستان میں مسلم لیگ کے اراکین کی تعداد زیرہ لیول تک بھی جاسکتی ہے ۔

اب انھیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں بلوچستان میں اپنی پارٹی کو بچانا ہے یا ختم کرناہے یہ فیصلہ اب مرکز کو ہی کرنا ہوگا۔