عدالتی فیصلوں سے اختلافات ہر سیاسی کارکن کا حق ہے،سعدرفیق

سپریم کورٹ پر حملے کی ذمہ داری مسلم لیگ ن پر نہیں سابق چیف جسٹس پر عائد ہوتی ہے پانامہ کی بجائے اقامے کی بنیاد پر وزیراعظم کو نکالنے کے فیصلے کی ہر سطح پر مخالفت کرینگے ہم کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتے ، اس سے پاکستان کو خطرات لاحق ہونگے ۔ ہمیں بین الاقوامی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہونا ہو گا اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو موجودہ صورتحال پر غور کرنا ہو گا، ترمیم کے بعد اب وہی پارٹی کا سربراہ ہو گا جس کو کارکن چاہیں گے ،کوئی بھی آمر ان کا راستہ نہیں روک سکے گا وزیرریلوے کا سینٹ میں اظہار خیال

منگل 10 اکتوبر 2017 22:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ بدھ اکتوبر ء) وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے اختلافات ہر سیاسی کارکن کا حق ہے،سپریم کورٹ پر حملے کی ذمہ داری مسلم لیگ ن پر نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس پر عائد ہوتی ہے جس کے اقدامات سے اداروں میں تصادم ہوتا ہے۔ پانامہ کی بجائے اقامے کی بنیاد پر وزیراعظم کو نکالنے کے فیصلے کی ہر سطح پر مخالفت کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز ایوان بالا میں تحریک پر بحث کے دوران کیا۔ وفاقی وزیر سعد رفیق نے کہا کہ سیاست کے میدان میں سب سے غلطیاں ہوتی ہیں اور تجربہ کار سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس طرح کی گفتگو پر حیرانگی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو این آر او کیوں کرنے پڑتے ہیں اور ان مجبوریوں کا ذکر نہیں کرتے ہیں جن سے سیاستدانوں کو گزرنا پڑتا ہے اور سیاستدانوں کو ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم وہ بات کیوں نہیں کرتے ہیں کہ سیاستدانوں کو سیاست سے کیوں روکا گیا ۔ جس ملک میں منتخب وزیراعظم کو جلا وطن اور کارکنوں کو کوڑے لگائے گئے ہوں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پر ہم نے حملہ نہیں کیا بلکہ سابق چیف جسٹس اس کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور ان مجبوریوں اور مشکلات کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاست میں ہم جن سے رہنمائی لیا کرتے تھے وہ بھی سیاستدانوں کی مجبوریوں کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پی پی کے دور میں بھی مسلم لیگ (ن) کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ میثاق جمہوریت دونوں جماعت کے درمیان بہت بڑا معاہدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ سب نے غلطیاں کی ہیں تاہم ہمیں اپنی غلطیوں سے آگے بڑھنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ تمام اداروں سے بالاتر نہیں ہے ہم نے کبھی نہیں کہا کہ بعض ادارے سازشوں میں مصروف ہیں تاہم پانامہ کے بعد اقامے کی بنیاد پر منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا ۔ ہم نے سا رے فیصلے پر عملدرآمد کیا تاہم ایک فیصلے کے بارے میں رائے دینا ہمار احق ہے۔ متنازعہ عدالتی فیصلے آسمانوں سے اترے ہیں کیا کہ تمام عدالتی فیصلوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جمہوری مخالفین نے پانامہ سے فائدہ اٹھایا انہوں نے کہا کہ موجودہ فیصلے کی پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو اپنی رائے سے آگاہ کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔ ہم فیصلوں پر آسمان نہیں لا سکتے تاہم اس کا مطلب محاذ آرائی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں گاڈ فادر اور مافیا کہا گیا مگر ہم نے احتجاج نہیں کیا ہم نے متنازعہ ترین فیصلے کو بھی مانا ۔

جے آئی ٹی کے سامنے تحفظات کے باوجود پیش ہوئے ہم نے جے آئی ٹی میں فوجی اداروں کے نمائندوں کو شامل کرنے کی مخالفت کی مگر ہماری بات نہیں مانی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم پر انتخابی اصلاحات بل سے حلف نامہ ختم کرنے کا الزام لگایا گیا ۔ ہم کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتے ہیں ۔ اس سے پاکستان کو خطرات لاحق ہونگے ۔ ہمیں بین الاقوامی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہونا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو موجودہ صورتحال پر غور کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ پی پی کی جانب سے ایک ایسے قانون کی حمایت کی جا رہی ہے جس کا ذوالفقار علی بھٹو نے خاتمہ کیا تھا۔ آج ہم نے ہمت کر کے اس قانون کو نکالا ہے جو سابق صدر پرویز مشرف نے آئین میں ڈالا تھا تاکہ بے نظیر بھٹو مرحوم اور میاں نواز شریف کا راستہ روک سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم سے اب وہی پارٹی کا سربراہ ہو گا جس کو کارکن چاہیں گے اور کوئی بھی آمر ان کا راستہ نہیں روک سکے گا۔ ۔