Blood Sugar Aur Blood Pressure - Article No. 1359

Blood Sugar Aur Blood Pressure

بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر - تحریر نمبر 1359

بلڈ شو گر اور بلڈ پریشر،آپ کے خاموش دشمن ان سے ہوشیار رہیے چالیس سال کی عمر کے بعد بلڈ پریشر اور کو لیسٹرول کے باقاعدہ ٹیسٹ کرانا ازحد ضروری ہیں

پیر 3 ستمبر 2018

بلڈ شو گر اور بلڈ پریشر
آپ کے خاموش دشمن ان سے ہوشیار رہیے
چالیس سال کی عمر کے بعد بلڈ پریشر اور کو لیسٹرول کے باقاعدہ ٹیسٹ کرانا ازحد ضروری ہیں بلکہ یہ سارے ٹیسٹ ان لوگوں کو بھی کروانے چاہئیں جو بظاہر بہت صحتمند نظر آتے ہیں ۔
چکنے اور بازاری کھانوں سے حتی الا مکان پر ہیز کیجیے کیونکہ مغربی طرز کے یہ کھانے ہائپر ٹینشن ذیابیطس ہائی بلڈ پریشر اور خون میں کو لیسٹرول کی سطح کو خطر ناک حد تک بڑھانے کا باعث بھی بنتا ہے ۔


عمر کے بڑھنے کیساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے کہ ہم باقاعدگی کے ساتھ اپنا طبی معائنہ کرواتے رہیں تا کہ مہلک بیماریوں کی بالکل ابتدا میں ہی تشخیص کی جاسکے ۔قریشی صاحب کا خاندان درمیانہ طبقے کا ایک عام خاندان تھا اور ہر لحاظ سے خوشحال تھا۔

(جاری ہے)

اپنے طبقے کے معیار کے اعتبار سے وہ لوگ خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے ۔یہ ایک مثالی خاندان تھا جو چار افراد پر مشتمل تھا ۔

دو میاں بیوی اور دو بیٹیاں ۔ایک بیٹی تو ٹین ایجر تھی اور دوسری کی عمر دس سا ل کی تھی ۔دونوں میاں بیوی کا م کرتے تھے ۔ان کی شادی کو سترہ سال کا عر صہ گزر چکا تھا اور اس سارے عرصے کے دوران وہ دونوں کا م کرتے رہے تھے ۔دونوں صبح سے شام تک اتنے زیادہ مصروف رہتے تھے کہ انہیں اپنے اوپر تو جہ دینے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا ۔خوش قسمتی سے بچوں کو اپنے والدین کی بے انتہا مصروفیات کے باوجود یہ سہولت حاصل تھی کہ والدین میں سے کوئی ایک عام طور سے ان کے پاس موجود رہتا تھا ۔
کیونکہ ان دونوں کے اوقات کا رمختلف تھے ۔عبدالرب قریشی کے اوقات ِ کار روزانہ شام کے پانچ بجے شروع ہوتے تھے جبکہ اس کی بیوی ثمینہ شام پانچ بجے تک گھر واپس آجاتی تھی ۔اس کے نتیجے کے طور پر خاندان کے سارے معاملات ایک مشینی انداز میں چل رہے تھے ۔چونکہ والدین میں سے کوئی ایک ہمیشہ گھر پر موجود رہتا تھا اس لئے بچوں کو ان دوسرے بچوں کی طرح مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جن کے دونوں ہی والدین سارے دن کے کام پر چلے جاتے تھے ۔
والدین بہت زیادہ مصروف رہتے تھے ۔متوسط طبقے کے دوسرے کام کرنے والے لوگوں کی طرح ان کے لئے بھی صبح کا وقت سب سے زیادہ مشکل وقت ہوتا تھا ۔تا ہم وہ کسی نہ کسی طرح ناشتے کی تیاری کا اور دوپہر کے کھانے کے بندوبست کر لیتے تھے اور بچون کو اسکول بھیج دیتے تھے ۔اس وقت کے دوران افراد خا ندان کو سخت تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن اس ساری پریشانی کا ازالہ اس وقت ہوجاتا تھا جب خاندان کے تمام افراد کو ویک اینڈ پر اکٹھا ہونے کا اور ویک اینڈ ایک ساتھ منانے کا موقع ملتا تھا ۔
دونوں میاں بیوی بچوں پر اور اپنے کا م پر پوری توجہ دیتے تھے اور زندگی کا ایک ڈھانچہ بن گیا تھا ۔سب کچھ اسی کے مطابق چل رہاتھا ۔عبدالرب قریشی کو خاندان میں سب سے زیادہ صحت مند سمجھا جاتا تھا ۔بچے ہمیشہ خوش ہو کر کہتے تھے ”ہمارے ڈیڈی سب سے زیادہ طاقتور ہیں “عبدالرب کواپنے دفتر کے لوگوں کے درمیان بھی سب سے زیادہ صحتمند سمجھاجاتا تھا ۔
حقیقت تو یہ تھی کہ عبدالرب نے اپنی ملازمت کے سارے عرصے کے دوران کبھی ایک دن کے لئے بیماری کی وجہ سے چھٹی نہیں کی تھی ۔
پریشان کن علامتیں
جب عبدالرب کی عمر پینتا لیس سال کی تھی تو اسے سخت کھانسی اور نزلہ ہو گیا ۔وہ دواؤں ی ایک دوکان پر گیا اور اس نے کھانسی کا ایک شربت خرید لیا ۔اسے توقع تھی کہ اس کے استعمال سے فائد ہ ہو جائے گا ۔
اس نے شربت کی دو بو تلیں استعمال کر لیں لیکن اسے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا ۔وہ ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے اسے بعض اینٹی بایو ٹک دوائیں تجویز کیں ۔اس نے ا ن اینٹی بایو ٹک دواؤں کا استعمال شروع کر دیا۔لیکن اینٹی بایو دواؤں کا رس پورا کرنے کے بعد بھی اس کی ٹکطبیعت ٹھیک نہیں ہوئی ۔چونکہ وہ ہمیشہ صحت مند رہاتھا ۔اس لئے اس نے یا اس کی بیوی ثمینہ نے اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔
لیکن ثمینہ کو یہ محسوس ہوا کہ عبدالرب کے کھانسنے کے انداز میں کوئی چیز ایسی تھی جو معمول سے ہٹ کر معلوم ہوتی تھی ۔اس نے اپنے شوہر پر زور دیا کہ وہ ایک قریبی اسپتال میں اپنا پورا چیک اپ کروائے ۔عبدالرب تو یہ سوچتا تھا کہ اس کا اسپتالوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اور وہ اور اسپتال ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ۔اس کے خیال کے مطابق اسپتال جانا محض تضیح اوقات تھا ۔
تا ہم ‘بیوی کے بہت زیادہ اصرار پر اس کا دل رکھنے کی غرض سے وہ ایک دن ماہرین سے مشورے کے لئے اسپتال جاپہنچا ۔صبح کے تھوڑی دیر کے بعد ہی ثمینہ کو اپنے شوہر کا فون موصول ہوا جس میں اس کے شوہر نے اس سے کہا کہ وہ فوراََ اس کے پاس اسپتال پہنچے ۔وہ سخت پریشان اور افسردہ خاطر معلوم ہورہا تھا ۔ ثمینہ فوراََ اسپتال پہنچی اور وہاں جاکر اسے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر وں نے ہنگامی طور پر عبدالرب کو اسپتال میں داخل کر لیا تھا ۔
ڈاکٹر نے ثمینہ کو بتا یا ”آپ کے شوہر کا بلڈ پریشر بہت ہائی ہے ۔وہ اس وقت دو سوتیس اور ایک سو ہے ۔یہ اتنا زیادہ ہائی ہے کہ دل کے دورے کا بھی سبب بن سکتا ہے ۔مریض بے ہوش بھی ہو سکتا ہے ۔و ہ کو مامیں بھی جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر نے کچھ مزید تشویش انگیز باتیں بھی بتائیں ۔”ان کا جگر پھیل گیا ہے اور ہمیں بعض دیگر سنگین چیزوں کا بھی شبہ ہے ۔ان کی حالت تو ایسی ہے کہ انہیں وارڈ میں بھی چلنا نہیں چاہئے بلکہ وہیل چےئر استعمال کرنا چاہئے ۔
ہم نے انہیں بلڈ پریشر کم کرنے کی گولی دے دی ہے ۔ہم نے انہیں داخل تو کر لیا ہے اور ا ب باقی رسمی کارروائیاں آپ پوری کر دیں ۔
خون میں شوگر کی مقدار
گفتگو کے دوران عبدالرب اور ثمینہ ڈاکٹر کو بے یقینی کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔ان دونوں کے خیال کے مطابق عبدالرب میں تو بیماری کی کوئی علامت نہیں تھی اور وہ بیمار نہیں ہو سکتا تھا ۔انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ و ہ کسی اور ڈاکٹر سے بھی مشورہ کریں گے ۔
چونکہ یہ ایک بہت بڑا اسپتال تھا جس میں ہر شعبے کے ماہرین بڑی تعداد میں موجود تھے اور ان سے ان لوگوں کی واقفیت بھی تھی ۔اس لئے دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے ڈاکٹر وں سے مشورہ کرنے میں کوئی وقت پیش نہیں آئی ۔سب کچھ اس قدر تیزی کے ساتھ اور ایسے غیر متوقع طور پر ہو ا تھا کہ دونوں میاں بیوی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ عبدالرب بیمار بھی ہو سکتا ہے ۔
ان دونوں کی اس کیفیت کو دیکھ کر چیف کنسلٹنٹ کو قدرے حیرانی ہوئی او اس ثمینہ سے مخاطب ہو کر سختی سے کہا ” آپ انہیں صرف اپنی ذاتی ذمہ داری پر اسپتال سے باہر لے جاسکتی ہیں اور اس کے لئے آپ کو ایک دستاویز پردستخط کرنے ہوں گے ۔“ان دونوں میاں بیوی کے پاس اب ڈاکٹروں کی بات ماننے کی علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔عبدالرب کو سپتال میں داخل کرادیا گیا اور اس کے تمام ٹیسٹ شروع ہو گئے ۔
اس کی ناشتے کے بغیر بلڈ شوگر بہت ہی زیادہ ہائی نکلی ۔تقریباََ پانچ سو ۔چیف میڈیکل آفیسر نے کہا کہ یہ نہایت غیر معمولی مقدار ہے ۔کو لیسٹرول اور لیپڈ بھی بہت زیادہ بڑھے ہوئے پائے گئے ۔ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق عبدالرب قریشی ہائپر ٹینشن ‘ذیابیطس ‘بڑھے ہوئے کو لیسٹرول اور بہت زیادہ ہائی بلڈ پریشر کا شکار تھے ۔اس کے بہت سے ٹیسٹ کئے جانے تھے اور اسے پندرہ دن تک اسپتال میں داخل رہنا تھا ۔
ثمینہ کی پر سکون اور شاد وآباد دنیا میں جیسے زلزلہ آگیا ۔
طرزِ زندگی
ایک ایسے باپ کے بارے میں جسے زندہ رہنے کے لئے انسولین کا سہارا لینا پڑتا ہو ‘بچے یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرے والد سب سے زیادہ مضبوط انسان ہیں “اب اس خاندان کا طرزِ زندگی بدل چکا ہے ۔بازار کے کھانے کھانا بالکل بند کردیا گیا ہے ۔صبح کے بہت مصروف نظام الاوقات میں چہل قدمی کے وقت کوبھی شامل کردیا گیا ہے ۔
دماغ کو پر سکون رکھنے کی شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے ۔یو گا کی مشقیں شروع کی دی گئی ہیں اور پھلوں اور سبزیوں کو روزانہ کی خوراک میں شامل کر دیا گیا ہے ۔کھانے میں نمک کی مقدار کم کردی گئی ہے اور بغیر شکر والی گولیوں کا استعمال شروع کردیاگیا ہے ۔ان ساری چیزوں کے نتیجے میں مٹاپے میں کمی واقع ہوئی ہے اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر پر قابو پالیا گیا ہے ۔

اس خاندان کی کہانی سے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے ؟
چالیس سال کی عمر کے بعد بلڈ پریشر بلڈ شوگر او کو لیسٹرول کے باقاعدہ ٹیسٹ کروانے چاہئیں اور ان کے علاوہ معمول کے دوسرے ٹیسٹ بھی کروانے چاہئیں ۔یہ سارے ٹیسٹ ان لوگوں کو بھی کروانے چاہئیں جو نظام بہت صحت مند نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی شکایت نہیں ہے ۔چکنے اور بازار کے کھانوں سے پرہیز کیجئے اور کھانا کھانے کی صحت بخش عادتیں پیدا کیجئے ۔
تمام چربی والے اور مغربی طرز کے بازار کے کھانے ہمارے معاشرے کے لوگوں کے لئے موزوں نہیں ہیں ۔ورزش کو اپنی زندگی میں شامل کیجئے ۔یہ چہل قدمی ‘جاگنگ یا یو گاوغیرہ کی شکل میں ہو سکتی ہے ۔خاندان والوں کے ساتھ فرصت کا کچھ وقت گزار ئیے۔ صبح کے وقت کی زبردست بھاگ دوڑاور اسٹر یس سے بچئے ۔پر سکون رہنے کی کوشش کیجئے ۔اپنے ناشتے کو کبھی مت بھو لئے ۔اچھا کھانا پابندی کے ساتھ کھائیے ۔اپنی غذا میں زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں شامل کیجئے ۔اپنے سونے کے وقت میں باضابطگی پیدا کیجئے ۔قریشی خاندان جس مشکل تجربوں سے گزرا ہے وہ کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں ۔تھوڑی سی معمولی کوششوں کے ذریعے ہم زیادہ بہتر انداز کی زندگی گزار سکتے ہیں ۔

Browse More Blood Pressure