Bars - La Ilaaj Nahi - Article No. 2532

Bars - La Ilaaj Nahi

برص،لاعلاج نہیں - تحریر نمبر 2532

بیشتر لڑکیاں اور خواتین اس بیماری کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں

منگل 6 ستمبر 2022

ڈاکٹر جمیلہ آصف
برص جلد کی ایک طویل مدتی بیماری ہے جس سے متاثرہ جلد پہ سفید دھبے نمودار ہو جاتے ہیں۔ان دھبوں کے کناروں اور نارمل جلد میں واضح فرق ہوتا ہے۔یہاں تک کہ ان دھبوں والی جلد کے بال بھی سفید ہو سکتے ہیں۔منہ اور ناک کے اندر کے حصے میں بھی یہ سفید دھبے پائے جا سکتے ہیں۔عام طور پر جسم کے دونوں اطراف،یعنی دایاں اور بایاں حصے متاثر ہوتے ہیں۔
اکثر دھبے جلد کے ان حصوں پر شروع ہوتے ہیں جو سورج کی روشنی میں آتے ہیں۔یہ سیاہ جلد والے لوگوں میں زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔جلد کے خلیوں کے اندر ایک کالے رنگ کا مادہ پایا جاتا ہے جس کو میلانن کہتے ہیں۔اس میلانن کی وجہ سے ہی جلد کا رنگ ہلکا یا گہرا ہوتا ہے یعنی اگر جلد کا رنگ سفید ہو تو میلانن کی مقدار کم اور اگر سیاہی مائل ہو تو میلانن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

برص کی بیماری رنگ پیدا کرنے والے میلانن کے خلیوں کی تباہی سے پیدا ہوتی ہے۔
یہ دھبے دودھ کی مانند سفید ہوتے ہیں اور عام طور پر ہاتھوں بازوؤں،ٹانگوں اور پاؤں پر شروع ہوتے ہیں۔یہ مختلف جسامت اور شکل کے ہوتے ہیں اور جسم کے کسی بھی حصے پر نمودار ہو سکتے ہیں۔کچھ افراد کو دھبوں کے نمودار ہونے سے قبل خارش بھی ہوتی ہے۔دھبے شروع میں چھوٹے ہوتے ہیں،لیکن اکثر بڑھ جاتے ہیں اور شکل بدلتے رہتے ہیں۔
عام طور پر یہ دھبے ہونٹوں اور انگلیوں کی پوروں،چہرے اور اعضائے مخصوصہ پر شروع ہوتے ہیں جو ایک خاص ترتیب میں ہوتے ہیں۔یہ چہرے،ہاتھوں اور کلائیوں پر سب سے زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔
برص کو دو اہم اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔قطعاتی اور غیر قطعاتی۔زیادہ تر دھبے غیر قطعاتی ہوتے ہیں یعنی وہ دونوں اطراف کو متاثر کرتے ہیں۔ان صورتوں میں جلد کا متاثرہ حصہ عام طور پر وقت کے ساتھ پھیلتا ہے۔
اس میں برص کے دھبے ایک ترتیب کے ساتھ یا بغیر ترتیب کے سارے جسم پر پھیلے ہوتے ہیں۔عام طور پر جسم کا کوئی حصہ بھی ان سے محفوظ نہیں ہوتا۔کبھی کبھی تو تمام جسم ہی اس بیماری کی زد میں آ جاتا ہے۔
ایسی صورت حال میں برص کی بیماری کو یونیورسل وٹیلیگو کا نام دیا جاتا ہے۔تقریباً دس فیصد معاملات قطعاتی ہوتے ہیں۔یعنی ان میں زیادہ تر جسم کا ایک حصہ متاثر ہوتا ہے۔
ان صورتوں میں جلد کا متاثرہ حصہ عام طور پر وقت کے ساتھ نہیں پھیلتا ہے۔یہ ایسی قسم ہے جو علاج کروانے سے عموماً بہتر ہو جاتی ہے۔لیکن برص کی بیماری کا عام طور پر کوئی خاص مزاج سامنے نہیں آتا،کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ جسم پر کہیں بھی ایک سفید دھبہ ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا سائز بڑھتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی اس سفید دھبے کے ساتھ جسم پر نئے دھبے بھی نمودار ہونے لگتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسم پر کوئی سفید دھبا نمودار تو ہو گیا۔لیکن نہ تو اس کا سائز بڑھتا ہے اور نہ ہی جسم پر نئے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔
پھر اس بیماری کے بڑھنے کا کوئی خاص طریقہ کار نہیں ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بیماری نمودار ہونے کے بعد بڑی تیزی سے بڑھتی ہے اور کبھی بیماری بڑھتے بڑھتے رک جاتی ہے۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر تیزی سے بڑھنے لگتی ہے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیماری نمودار ہونے کے بعد بہت آہستگی سے بڑھتی رہتی ہے۔
ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ برص کے داغ خود بخود بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ جلد میں پائے جانے والے میلانن کے خلیات دوبارہ کام کرنے لگ جاتے ہیں لیکن یہ سفید دھبے مکمل طور پر غائب نہیں ہوتے بلکہ کسی نہ کسی حد تک موجود رہتے ہیں۔
ایک بات یاد رکھیں کہ یہ دھبے اُبھرے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ ہموار ہوتے ہیں۔جلد میں سوائے رنگت کی تبدیلی کے اور کوئی علامت محسوس نہیں ہوتی۔
اگرچہ ان دھبوں کی کوئی علامت نہیں ہوتی۔یہ دھبے جسم کے کھلے حصوں پر ہوں تو ان پر سورج کی شعاعیں پڑنے سے مریض جلن کی شکایت کر سکتا ہے۔مریض کو اس وجہ سے کوئی جسمانی تکلیف تو نہیں ہوتی مگر اس کی وجہ سے مریض بعض اوقات نفسیاتی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔خاص طور پر لڑکیاں اور خواتین اس مرض کی وجہ سے بہت زیادہ پریشانی محسوس کرتی ہیں اور بعض مریض اس بیماری سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کبھی کبھی تو کچھ مریض خودکشی کا سوچنے لگتے ہیں۔اس طرح کے رویے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عوام میں یہ بات مشہور ہو چکی ہے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔اگرچہ سو فیصد علاج نہ سہی مگر کسی حد تک اس بیماری کا علاج کیا جا سکتا ہے اور برص کے مریض کو لاعلاج قرار نہیں دیا جا سکتا۔علاج کے لئے بہت سے روایتی اور دیسی طریقے بھی آزمائے جا سکتے ہیں،جن کو عرف عام میں ٹوٹکے کہا جاتا ہے۔
بعض اوقات یہ ٹوٹکے کافی مفید ثابت ہوتے ہیں۔علاج کے لئے مریض کو مکمل معلومات فراہم کرنی چاہئیں بلکہ ان کے رشتے داروں کو بھی آگہی فراہم کرنی چاہئے۔ممکن ہو تو کسی ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرکے مریض کے خدشات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔اس سے نہ صرف مریض کا نفسیاتی دباؤ کم ہوتا ہے،بلکہ مریض علاج کروانے کے لئے بھی آمادہ ہو جاتا ہے۔

برص کی صحیح وجہ معلوم تو نہیں ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اس بیماری کی ایک وجہ کہیں نہ کہیں جینیاتی ہے۔یعنی یہ بیماری موروثی ہو سکتی ہے۔اس جینیاتی (موروثی) فیکٹر کی خرابی کی وجہ کوئی ایسا ماحولیاتی عنصر بنتا ہے جس کی وجہ سے آٹو امیون بیماریاں جنم لیتی ہیں لیکن اس آٹو امیون ری ایکشن کے شروع ہونے کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس آٹو امیون ری ایکشن کے نتیجے میں رنگ پیدا کرنے والے خلیات تباہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ایسے افراد میں بیماری بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے،جن افراد میں تھائی رائیڈ گلینڈ زیادہ ہارمون بنائیں یا گردے کے اوپر والے حصے کے ایڈرینل غدود کم ہارمون بنائیں یا جسم میں وٹامن بی کی کمی ہو جائے تو اس صورت میں بھی برص کی بیماری ہو سکتی ہے۔برص کے مریضوں میں ذیابیطس عام لوگوں کی نسبت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔البتہ ایک بات یاد رکھیں کہ برص متعدی مرض نہیں ہے۔برص کے حوالے سے عام لوگوں میں کچھ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔مثلاً ایک خیال ہے کہ برص دودھ اور مچھلی ایک ساتھ کھانے سے ہوتا ہے۔لیکن میڈیکل سائنس نے ان تمام باتوں کو غلط قرار دیا ہے۔

Browse More Face And Skin