Khud Par Rehem KareeN - Article No. 1583

Khud Par Rehem KareeN

خود پر رحم کریں - تحریر نمبر 1583

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بُرے کاموں سے بچنے کے لیے بہت سے ذرائع دیے ہیں۔

ہفتہ 25 مئی 2019

ڈاکٹر غنی الرحیم سبزواری
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بُرے کاموں سے بچنے کے لیے بہت سے ذرائع دیے ہیں۔انسان جب کسی بُرے کام کا ارادہ کرتا ہے تو ضمیر اُسے فوراً آگاہ کردیتا ہے۔اب وہ ضمیر کا کہنا مانے یا نہ مانے،یہ اُس کی صوابدید پر منحصر ہے ۔اسی طرح جب وہ روغنی اور ثقیل کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو معدہ اُسے منع کرتا ہے ۔
اگر وہ سمجھ دار ہے تو محتاط ہوجاتا ہے اور اگر اکثریت کی طرح زبان کے چٹخارے کا غلام ہے تو معدے کے انتباہ کو نظر انداز کرکے اپنے چٹورپن کی خواہش پوری کر لیتا ہے اور پھر نقصان اٹھاتا ہے۔
اکثر احباب ،خصوصاً خواتین سے یہ سننے میں آتا ہے کہ”اگر پیٹ میں گڑ بڑ ہوجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فاقہ کرو۔یہ چورن اور ہاضمے کی دوائیں کس لیے بنی ہیں ،اس لیے ان میں سے کوئی ایک دواکھالو اور اگلے روغنی اور چٹ پٹے طعام کے لیے مستعد ہوجاؤ۔

(جاری ہے)


”فاقے“کا لفظ بہت غور طلب ہے۔اس ایک لفظ میں مکمل صحت کا راز پنہاں ہے۔دنیا کے ہر مذہب نے فاقے کو مذہبی شکل دے کر اسے عبادت قرار دیا ہے۔کہیں یہ”برت“کے نام سے پکارا جاتا ہے اور کہیں”صوم الکبیر“(LENT)کہلاتا ہے ۔اسلام نے اسے ”روزے“کی شکل عطا فرمائی ہے اور رمضان کے مبارک مہینے میں روزے کو فرض قرار دیا ہے،لیکن بد قسمتی سے ہم اس سنہری موقع سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے اپنے جسم کی مشینری کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔

روزمرہ کے مقابلے میں ہم سحری میں کم از کم دگنی غذا اپنے معدے میں ٹھونس لیتے ہیں۔پھر افطار کے وقت دستر خوان پرپکوڑے،کچوریاں ،چکن رول،سموسے،کھجور،مٹھائی،نمک پارے،شکر پارے،فروٹ چاٹ اور کولامشروبات سجے ہوتے ہیں اور آخر کیوں نہ سجے ہوں؟کئی گھنٹے بھوکا اور پیاسا رہنے کے بعد خدا خدا کرکے یہ وقت آیا ہے ۔دعائیں مانگنے کے بجائے ہمارے کان سائرن یا اذان کی آواز پر لگے رہتے ہیں۔
اگر کھانے کا کمرہ بڑا ہے اور کمرے میں ٹی وی موجود ہے تو ہماری نظریں ٹی وی پر جمی ہوتی ہیں۔
جیسے ہی اللہ اکبر کی آواز آئی ،ہم ایتھوپیا کے قحط زدہ لوگوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔
کھانا حلق تک بھرلینے کے بعد ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔تھوڑی دیر میں گرم گرم خوشبودار کافی آجاتی ہے تو خوب مزے لے کر کافی پیتے ہیں اور ٹی وی بھی دیکھتے ہیں۔
دو گھنٹے بعد کھانے کا وقت ہو جاتا ہے تو کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں ۔تراویح چھوڑ دیتے اور عشاء کی نماز گھر پر پڑھ کر خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔اصل میں رات کاکھانا روغنی اور مسالے دار نہیں ہونا چاہیے۔کھانا کھاتے وقت ٹی وی پر کوئی ڈراماوغیرہ نہیں دیکھنا چاہیے۔
اس طرح دماغ وآنکھیں ٹی وی پر اور ہاتھ لقمے بنانے اورمنھ تک لے جانے میں مصروف رہتا ہے ۔
اس مشینی عمل سے کھانا مضر صحت بن جاتا ہے ۔کھانے پینے کے شوقین افراد کو اس قسم کی ساری نصیحتیں اس وقت بے معنی دکھائی دیتی ہیں،جب دستر خوان پر پلاؤ ،چکن کڑاہی،مٹن قورمہ،شامی کباب،تلی ہوئی مچھلی،رائتہ اور زردہ سجادیاجاتا ہے ،جن کی خوشبوئیں انھیں بے چین وبے قرار کر دیتی ہیں۔ان سب کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ کولامشروب پی کر ایک لمبی سی ڈکارلے کر بستر پر دراز ہوجاتے ہیں۔

رات میں الارم نے پھر سحری کے لیے اُٹھادیا۔بیگم تو پہلے ہی باورچی خانے میں موجود تھیں۔رات کا پلاؤ اور قورمہ مائیکروویواوون میں گرم کرکے دستر خوان پر لگادیا۔چوں کہ کئی گھنٹے بھوکا رہنا ہے،اس لیے پیٹ خوب بھرلیا جاتا ہے۔ابھی سحری پوری طرح کھائی بھی نہیں کہ فجر کی اذان شروع ہو گئی۔جھٹ آواز لگائی:”بیگم!ذرا جلدی سے ریفریجر یٹر سے کھیر کا ڈونگاتولے آؤ۔
“پھر کھیر کھاکر چلنے پھرنے میں دشواری ہوتی ہے۔
ہمارے مذہب نے تو روزہ ہمارے جسم اور روح کی صحت کے لیے فرض کیا ہے ،لیکن ہم انھیں صحت مند بنانے کے بجائے بیمار کر لیتے ہیں۔
یاد رکھیے ہر بیماری کی ابتدا معدے سے ہوتی ہے ۔ایک مہلک بیماری پہلے ایک چھوٹی سی کونپل کی شکل میں معدے میں پھوٹتی ہے،لیکن شروع میں اس کا پتا نہیں چلتا۔بسیار خورافراد بدستور چٹ پٹی اور روگنی غذائیں کھاتے اور اس کو نپل کی آب یاری کرتے رہتے ہیں ۔
جب چند برس بعد وہ کونپل ایک خاردارزہریلے پودے کی صورت اختیار کرلیتی ہے،تب انھیں ہوش آتا ہے ۔پھر وہ اسپتالوں کے چکرلگانے لگتے ہیں ۔
اگر کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو چکے ہوں تو کیموتھراپی یا آپریشن کراتے ہیں۔گردوں کا مسئلہ ہے توتنقیہ خون(ڈایالیسس)کراتے ہیں۔حجامہ کراتے ہیں۔انھیں رنگ برنگی گولیاں باقاعدگی سے کھانی پڑتی ہیں ۔
ایسے افراد کی غذا دوتوس اور پھیکی پتلی مونگ کی دال تک محدود ہو کررہ جاتی ہے ۔چٹ پٹے ذائقے دار کھانے اُن کے لیے خواب بن جاتے ہیں۔تقریبات میں پُر تکلف کھانوں کی خوشبوئیں ان کے دلوں پر آرے چلاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کے لیے اپنی نعمتوں کا ایک کوٹا مقرر کر رکھا ہے۔جو فرد ان نعمتوں کو زیادہ سے زیادہ کھانے لگتا،اور بے قدری کرتا ہے،وہ زندگی کے آخری برسوں میں ان نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے اور جوخدا کی نعمتوں کی قدر کرتا ہے ،وہ ان سے تاحیات لطف اندوز ہوتا رہتا ہے ،اس لیے صحت سے بھر پور زندگی گزارنے کے لیے معدے کی زبان کو سمجھیں اور اس کا کہنا مانیں۔
اگر کبھی بے احتیاطی ہو جائے تو اگلے دن سادہ کھاناکھائیں اور آئندہ محتاط رہنے کا عزم کریں۔خود پر رحم کریں۔اصل دولت صحت ہے،اس کی حفاظت وقدر کریں۔

Browse More Ghiza Aur Sehat