Ji Haan Hum TB Ka Khatma Kar Sakte Hain - Article No. 2849

Ji Haan Hum TB Ka Khatma Kar Sakte Hain

جی ہاں ہم ٹی بی کا خاتمہ کر سکتے ہیں - تحریر نمبر 2849

اگر خدانخواستہ آپ یا آپ کے گھر کا کوئی فرد ٹی بی کے عارضے میں مبتلا ہے، تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ مرض سو فیصد قابلِ علاج ہے

ہفتہ 1 جون 2024

ڈاکٹر محمد فرحت عباس
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے رواں برس تپ دق کے عالمی یوم کے موقعے پر جس تھیم کا اجرا کیا گیا ہے، وہ ”جی ہاں ہم ٹی بی کا خاتمہ کر سکتے ہیں“۔اگر خدانخواستہ آپ یا آپ کے گھر کا کوئی فرد ٹی بی کے عارضے میں مبتلا ہے، تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ مرض سو فیصد قابلِ علاج ہے اور پاکستان میں سرکاری سطح پر اس کا مفت علاج عالمی ادارہ صحت کے تجویز کردہ پروگرام کے تحت کیا جاتا ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ٹی بی پر قابو پانے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لئے کام ہو رہا ہے، اس کے باوجود نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ اے) کے مطابق پاکستان میں متعدی بیماریوں سے ہونے والی اموات سب سے زیادہ تپ دق (ٹی بی) کے باعث ہوتی ہیں اور ملک ٹی بی سے متاثرہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔

(جاری ہے)


تپ دق یا ٹی بی ایک ایسا متعدی عارضہ ہے، جو عموماً پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔

اس مرض کا موجب بننے والا بیکٹیریا Mycobacterium Tuberculosis سانس کے ذریعے ایک سے دوسرے فرد تک پہنچتا ہے۔جب متاثرہ فرد کھانستا یا چھینکتا ہے، تو خارج ہونے والے لعاب (جیسے پھوار یا بوندیں) میں شامل جراثیم ہوا میں کچھ دیر رہتے ہیں اور اس دوران آس پاس موجود افراد کے سانس کے ذریعے اُن کے پھیپھڑوں تک منتقل ہو جاتے ہیں۔لازمی نہیں کہ جس فرد کے جسم میں ٹی بی کے جراثیم داخل ہوں، وہ اس کا شکار بھی ہو جائے، کیونکہ مضبوط مدافعتی نظام ان جراثیم پر قابو پا لیتا ہے، لیکن جب قوتِ مدافعت کمزور پڑ جائے تو تپ دق کے جراثیم فعال ہو جاتے ہیں۔
علامات کے اعتبار سے تو اس مرض کو دو قسم میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔
غیر فعال ٹی بی:
اگر کسی فرد کے جسم میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہیں، لیکن وہ غیر فعال ہوں، تو علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔ٹی بی کی اس قسم کو Latent ٹی بی بھی کہا جاتا ہے۔ٹی بی کی یہ قسم زیادہ خطرناک نہیں ہوتی، لیکن بہرحال علاج ناگزیر ہے، کیونکہ اس سے متاثرہ افراد میں سے 10 فیصد کو یہ عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔
نیز، متاثرہ افراد صحت مند لوگوں کو اس عارضے کا شکار کرنے کا موجب بھی بنتے ہیں۔
فعال ٹی بی:
ایسے افراد جو ٹی بی کی اس قسم سے متاثر ہوں، وہ اپنے آس پاس رہنے والوں کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ مرض آسانی سے دوسرے فرد کو لاحق ہو سکتا ہے۔اس قسم سے متاثرہ مریضوں میں بیکٹیریا کے حملہ آور ہونے کے چند ہفتوں بعد سوزش واقع ہو جاتی ہے، جس کے سبب جسم پر علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں، لیکن بعض کیسز میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی مہینوں تک کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی ہے۔
عمومی علامات میں کھانسی، بغیر کسی ظاہری وجہ کے وزن کم ہونا، تھکاوٹ، بخار، بالخصوص شام یا رات کے وقت، پسینے کی کثرت، کپکپاہٹ، چڑچڑا پن، موڈ کی خرابی اور بھوک کی کمی یا سرے سے محسوس نہ ہونا شامل ہیں۔یہ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں یہ تمام علامات موجود ہوں، ان میں سے چند علامات بھی ظاہر ہو سکتی ہیں۔پھیپھڑوں کی ٹی بی کے اکثر مریضوں کو مسلسل کھانسی مرض کے پیدا ہونے کے فوراً بعد ہی شروع ہو جاتی ہے، البتہ کھانسی پھیپھڑوں کی ٹی بی کی کوئی مخصوص علامت نہیں، کیونکہ تمباکو نوشی کی لت کے شکار افراد اور سانس کی نالی کی سوزش کے مریضوں میں بھی کھانسی عام ہے۔
سانس کی نالی کا انفیکشن تین ہفتوں میں ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے جنھیں مسلسل 3 ہفتوں سے زیادہ کھانسی ہو، اسے پھیپھڑوں کی ٹی بی کا ممکنہ مریض سمجھ لیا جاتا ہے اور ایسے ممکنہ مریضوں کے بلغم کا خوردبینی معائنہ نہایت ضروری ہے۔ٹی بی کا شبہ کریں اگر مسلسل تین ہفتوں سے زائد کھانسی ہو، غیر معینہ مدت سے کھانسی یا تین ہفتوں سے کم کھانسی ان علامات کے ساتھ ہو۔
بلغم میں خون کا اخراج یا رات کو بخار ہونا یا وزن میں کمی، مریض کے گھر والوں کو یا قریبی ملنے جلنے والوں کو ماضی میں ٹی بی کا عارضہ رہا ہو۔
یوں تو یہ مرض کسی کو بھی لاحق ہو سکتا ہے، لیکن کمزور قوتِ مدافعت رکھنے والے افراد اس مرض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوتِ مدافعت کمزور کیسے ہوتی ہے؟ تو کئی عوامل قوتِ مدافعت کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔
مثلاً ایچ آئی وی وائرس، گردوں کی بیماریاں، ذیابیطس کا عارضہ، غذائی قلت، بڑھاپا، کثرتِ تمباکو نوشی، نشہ آور اشیاء کا بکثرت استعمال، حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل پیرا نہ رہنے والے افراد، سرطان کا عارضہ یا سرطان کے علاج کے لئے کی جانے والی کیموتھیراپی، بعض ادویہ کے مابعد اثرات جیسے جوڑوں کے دردوں یا جلدی امراض کے لئے تجویز کردہ ادویہ، ایسے افراد جو عموماً ان ممالک میں جاتے رہتے ہوں، جہاں اس مرض کے شکار بکثرت افراد رہتے ہوں، ایسے افراد جو دودھ اُبال کر نہیں پیتے، کیونکہ مویشیوں میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہوں، تو یہ جراثیم دودھ کے ذریعے کسی فرد کے پیٹ میں پہنچ کر اسے متاثر کر سکتے ہیں۔

پھیپھڑوں کی ٹی بی کی تشخیص بلغم کے معائنے کی بنیاد پر کی جاتی ہے، جبکہ ایکس رے بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ٹی بی کا مکمل علاج موجود ہے، جس کا دورانیہ کم از کم چھ ماہ ہے۔بعض مریضوں میں علاج ادھورا چھوڑنے یا کسی اور وجہ سے ٹی بی کے جراثیم دوا کے خلاف مزاحمت میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اسے Drug-Resistant TB کہا جاتا ہے۔بہتر ہو گا کہ علاج کا دورانیہ مکمل کیا جائے اور ادویہ کے استعمال میں ناغہ کریں، نہ ادویہ کی خوراک میں کمی بیشی کی جائے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کرہ ارض پر جب تک ٹی بی کا ایک مریض بھی موجود ہے، اس وقت تک اس مرض کا قلع قمع ممکن نہیں، کیونکہ ایک مریض ہی اس مرض کو دیگر افراد تک پھیلنے کا موجب بنتا ہے۔اس لئے اس سے بچاؤ کا واحد ذریعہ متاثرہ مریضوں کا مکمل علاج ہی ہے۔اس کے علاوہ بچوں کو پیدائش کے فوراً بعد بی سی جی کا انجیکشن ضرور لگوائیں، ٹی بی کے مریض کے قریبی رشتے دار یا تیماردار اور عیادت کرنے والے افراد کو ضروری احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، مریض کو ہدایات دیں کہ وہ کھانستے یا چھینکتے وقت منہ کے آگے کپڑا رکھے، مریض کے تھوک کے لئے ڈھکن والا تھوک دان رکھیں، تاکہ جراثیموں کو فضا میں جانے کا موقع نہ ملے۔

Browse More Healthart