Malaria - Bachao Mumkin Bhi, Sahal Bhi - Article No. 2852

Malaria - Bachao Mumkin Bhi, Sahal Bhi

ملیریا ۔ بچاؤ ممکن بھی، سہل بھی - تحریر نمبر 2852

دنیا بھر میں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ملیریا ہے، جس کی زد میں صرف پس ماندہ ہی نہیں، بلکہ ترقی پذیر، ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں

پیر 10 جون 2024

ڈاکٹر محمد فرحت عباس
دنیا بھر میں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ملیریا ہے، جس کی زد میں صرف پس ماندہ ہی نہیں، بلکہ ترقی پذیر، ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں۔یہ بیماری افریقہ، ایشیا اور امریکا میں کافی حد تک پھیلی ہوئی ہے، جبکہ پاکستان میں بھی یہ مرض خوب پھیلتا ہے۔ملیریا کیوں ہوتا ہے اور اس سے بچاؤ کے لئے کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں؟ اس ضمن میں زیرِ نظر مضمون خصوصی طور پر تحریر کروایا گیا ہے، جو یقینا قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث بنے گا۔
ملیریا درحقیقت لاطینی لفظ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی Bad Air یعنی ”بُری ہوا“ کے ہیں۔اسے رومن بخار بھی کہا جاتا ہے۔ملیریا پیراسائٹ (جرثومے) کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے طبی اصطلاح میں پلازموڈیم کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کی چار اقسام پلازموڈیم وائی ویکس، پلازموڈیم فیلسی پیرم، پلازموڈیم اوول اور پلازموڈیم ملیری ہیں۔پاکستان میں پلازموڈیم وائی ویکس اور پلازموڈیم فیلسی پیرم، جبکہ اوول اور ملیری لاطینی امریکا اور افریقہ میں زیادہ عام ہے۔


ملیریا ہر مچھر کے کاٹنے سے ہر گز نہیں ہوتا، بلکہ ایک مخصوص مادہ مچھر Anopheles جب کسی فرد کو کاٹتی ہے، تو اپنے اندر موجود پلازموڈیم کے سپوروزائٹس یا انڈے اس میں منتقل کر دیتی ہے۔اگلے مرحلے میں یہ جراثیم جسم میں موجود خون کے سرخ خلیات کو اپنی غذا بناتے ہیں اور افزائش کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔خدانخواستہ اگر سپوروزائٹ جگر تک رسائی حاصل کر لیں، تو پھر یہ قسم وائی ویکس کہلاتی ہے، جس میں ملیریا کا حملہ بار بار ہوتا ہے۔
واضح رہے، جب اس قسم سے متاثرہ افراد کو مادہ مچھر دوبارہ کاٹتی ہے، تو پلازموڈیم کے جراثیم دوبارہ مچھر میں داخل ہو کر کسی دوسرے فرد کو بھی متاثر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
ملیریا کی علامات میں تیز کپکپی کے ساتھ بخار، انفلوئنزا، بے چینی، قے، کھانے پینے سے رغبت ختم ہونا، تھکاوٹ، سر اور پٹھوں میں درد وغیرہ شامل ہیں۔ملیریا کی تشخیص کے لئے عام طور پر خون کا ٹیسٹ اور بعض صورتوں میں پی سی آر بھی تجویز کیا جاتا ہے۔
علاج کے ضمن میں چند مخصوص ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جبکہ بعض صورتوں میں مخصوص ادویہ کے ساتھ انجیکشنز بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔مکمل صحت یابی کے لئے ضروری ہے کہ علاج کا دورانیہ مکمل کیا جائے۔یاد رکھیے، علاج کا دورانیہ مکمل نہ کرنا، ادویہ کی مقدار میں کمی بیشی یا باقاعدگی سے مقررہ وقت پر نہ کھانا مرض کی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے۔اگر مرض کی نوعیت شدید ہو تو ایسے مریضوں کو فوری طور پر ہسپتال میں داخل کر لیا جاتا ہے، کیونکہ معمولی سی بھی غفلت موت کا پروانہ بن جاتی ہے۔
ملیریا سے بچاؤ کے لئے بنیادی طور پر چار درجات ہیں، جنہیں اے، بی، سی اور ڈی سے موسوم کیا جاتا ہے۔”اے“ سے مراد ”Awareness“ ہے۔ملیریا بخار سے متعلق بنیادی معلومات کا ہونا اس مرض سے بچاؤ کا بنیادی ذریعہ ہے۔”بی“ لفظ ”Bite Avoidance“ کو ظاہر کر رہا ہے۔اس سے مراد ہے کہ مچھر کے ڈنک سے بچاؤ کے ذرائع استعمال کرنا ہے۔”سی“ سے مطلب Chemoprophylaxis“ ہے۔
یعنی بچاؤ کی ادویہ کا بروقت استعمال۔ایسے افراد جو ملیریا سے متاثرہ علاقوں میں رہائش پذیر ہوں یا ان علاقوں میں سفر کرنے جا رہے ہوں، تو انہیں چاہیے کہ اس مرض سے بچاؤ کے لئے مناسب ادویہ کا استعمال کریں۔”ڈی“ سے مراد ”Diagnosis“ ہے۔بروقت تشخیص ملیریا کی پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
ملیریا بخار سے بچاؤ کے لئے درج ذیل تدبیر پر بھی عمل کریں۔
گھر میں پانی ذخیرہ کرنے والے برتنوں جیسے بالٹی، کنستر، ڈرم، پھولدان، گملوں کے نیچے رکھے ہوئے برتن اور پانی کی ٹینکی کو ڈھانپ کر رکھیں۔مچھروں سے بچاؤ کے لئے دروازے اور کھڑکیوں پر جالی لگائیں، تاکہ مچھر اندر نہ آنے پائیں۔مچھر مار اسپرے، مچھر بھگاؤ لوشن کا باقاعدہ استعمال کیا جائے۔پوری آستین والا لباس استعمال کریں۔چھوٹے اور شیر خوار بچوں کو کمرے میں بھی مچھر دانی سے باہر ہر گز نہ سلائیں۔کھلی فضا میں بغیر مچھر دانی کے ہر گز نہ سوئیں۔گھر میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں اور گندگی جمع نہ ہونے دیں۔ملیریا کی علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر قریبی ہسپتال سے رجوع کریں۔

Browse More Healthart