Lyari Tashadud Main Khufiya Hath Mulavis Hai
لیاری تشدد میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے!!
علیحدگی پسندوں اور گینگ وار کا گٹھ جوڑ توڑنا ہوگا بابالاڈلہ اور عذیرجان بلوچ کے درمیان لیاری میں گینگ وار جاری ہے۔ اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ لیاری کے تشدد میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے جو گینگ وار کو سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے
جمعرات 12 فروری 2015
لیاری میں گینگ وار گروپوں کے درمیان کراچی کے ساحلی علاقوں کے کنٹرول کی جنگ شروع ہو گئی ہے ۔ عذیر جان بلوچ کے جانثاروں کے بابا لاڈلہ گروپ کی پسپا کر کے ساحلی علاقوں پر گرفت مضبوط کر لی ہے۔ لیاری میں رینجرز کا آپریشن شروع ہونے کے بعد عذیر بلوچ گروپ کے کارندوں نے ملیر اور میمن گوٹھ میں پناہ لے لی ہے۔ اس علاقے میں گینگ وار کا مکمل کنٹرول ہے اور وہاں سے انہیں یومیہ لاکھوں روپے بھتہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اغواء برائے تاوان کی وار داتیں بھی عروج پر ہیں۔
بابالاڈلہ اور عذیرجان بلوچ کے درمیان لیاری میں گینگ وار جاری ہے۔ اب یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ لیاری کے تشدد میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے جو گینگ وار کو سرمایہ بھی فراہم کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
لیاری سے لے کر کراچی کے ساحل تک گینگ وار اور علیحدگی پسندوں کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں کے رابطے اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں
لیاری میں رینجرز کے آپریشن کے بعد مطلوب افراد ساحلی علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں علیحدگی پسندوں نے انہیں بلوچستان بھجوادیا اور وہاں پڑوسی ملک نے اپنی سرحدیں بلوچ نوجوانوں کیلئے پہلے ہی کھول دی ہیں۔
نیا سال پولیس اور رینجرز کے لئے ابھی تک اچھا ثابت نہیں ہوا۔ سال کے پہلے 18 دنوں میں 18 پولیس والے قتل ہوئے اور 4ڈاکٹروں کو بھی نشانہ بنایاگیا جبکہ مجموعی طور پر 20 روز میں 100افراد جان کی بازی ہارگئے۔ سابق صدرآصف زرداری نے پولیس شُہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شُہدا کے لواحقین کے ایک ایک کڑور روپے فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس فاونڈیشن کی تقریب میں آصف زرداری نے شُہدا کے بچوں کے سر پر نہ صرف ہاتھ رکھا بلکہ انہیں نوکریاں دینے کی بھی ہدایت کی۔ گزشتہ سال 150 پولیس والے شہید ہوئے تھے جن میں ایس ایس پی سے لے کر کانسٹیبل تک تمام عہدوں کے لوگ شامل تھے۔ زیادہ تر پولیس والے کراچی کے شمالی علاقوں میں مارے گئے ہیں جہاں طالبان علیحدگی پسندوں اور گینگ وار کا کنٹرول ہے۔ ایس ایس پی چوہدری اسلم اور انسپکٹر شفیق تنولی کو شدت پسندوں نے نشانہ بنایا اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ حکمران پولیس کے شُہدا کے لئے بڑے بڑے معاوضے اور نوکریوں کے اعلانات تو کرتے ہیں لیکن معاوضے کے چیک اور نوکریاں نہیں ملتیں۔ شُہدا کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں اور ان کے بچے دربدر پھرتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے اس بات کا خاص طور پر نوٹس لیا اور استفسار کیاکہ شہداء کے بچوں کو نوکریاں کیوں نہیں دی گئی؟ المیہ یہ بھی ہے کہ پولیس خود اپنی حفاظت میں ناکام ہے تو وہ شہریوں کی حفاظت کیا کرے گئی؟ پولیس کا شہر پر کنٹرول صرف اس حد تک ہے کہ وہ سٹرک سے گزرنے والے رکشاوں اور موٹر سائیکل سواروں کی چیکنگ کرتی ہے اور ان سے دن بھرکی کمائی چھین لیتی ہے۔ شہریوں سے رقم چھینتے ہوئے بھی کئی پولیس موبائلوں پر حملے ہو چکے ہیں۔
کراچی کی یونیورسٹی روڈ ”قاتلوں کی جنت“ بن چکی ہے جہاں اب تک 50 افراد قتل کیے جا چکے ہیں جن میں اہم شخصیات ،صحافی ،ڈاکٹر ، وکیل ، پروفیسر ، سرکاری افسر، پیش امام سب شامل ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس شاہراہ پر کیمرے نصب نہیں ہیں۔ کے ایک سی اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹرز کو جس مقام پر قتل کیا گیا وہاں جامعہ کراچی کے پروفیسر شکیل اوج اور دوسرے افراد کوبھی گھات لگا کر مارا گیا تھا۔ کے ایم سی کے ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ یوسف طلعت سنیئر صحافی نذیر خان کے صاحبزادے تھے۔
کراچ میں جاری آپریشن کو قومی ایکشن پلان کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ا س آپریشن کو سندھ بھی میں توسیع دیدی جائے گی۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے سندھ کی چوٹی کی کمیٹی اور ذیلی کمیٹیوں کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ سانحہ پشاور سندھ کی بیورو کریسی کیلئے رحمت ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وزیراعظم جب کراچی آپریشن کے بارے میں اجلاس کی صدارت کرنے کیلئے کراچی آئے تھے تو حکومت سندھ نے اسلحہ اور جدید آلات خریدنے کیلئے 10ارب مانگ لئے تھے۔ اب حکومت سندھ نے کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کیلئے 32 ارب روپے اخراجات کا تخمینہ لگاتے ہوئے یہ رقم چار قسطوں میں ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔ دوسری جانب آئی جی جیل خانہ جات نے بھی جیلوں کی حفاظت کے لئے اربوں کے فنڈز کا تقاضا کیا ہے۔ اگر وفاق نے ان مالی تقاضوں کو پورا کیا تو بیورو کریسی کی عقابی نگاہیں قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بجائے فنڈز کے حصول پرمرکوز ہیں۔ سندھ میں امن اومان پر پہلے ہی 52ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
Lyari Tashadud Main Khufiya Hath Mulavis Hai is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 12 February 2015 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
متعلقہ عنوان :
کراچی کے مزید مضامین :
1965 کی جنگ میں پاکستان کی بحری افواج کا کردار
Pakistan Navy's Role in 1965 War
جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کو آرڈینیشن سینٹر ۔ میری ٹائم انفارمیشن کا مرکز
Joint Maritime Information Coordination Center
پی این ایس یرموک: پاک بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث
Pakistan Navy inducts PNS Yarmook
سندھ کارڈ کے غبارے سے ہوانکل گئی؟
Sindh card ke ghubare se hawa nikal gayi
میئر کراچی کی برطرفی کا مطالبہ
mayor Karachi ki bartarfi ka mutalba
ایلی کاٹ کون تھا؟
Allie kat kaon tha?
آئی جی پولیس کے مسئلے پر خمیازہ میگا سٹی بھگت رہا ہے
IG Police Ke Masleh Par Khamyaza Megacity Bhugat Raha Hai
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف سازش!
Wazir e Ala Murad Ali Shah K Khilaf Sazish
وزیر داخلہ کا کراچی مشن۔۔اتحاد کے لئے رابطے
Wazir e Dakhla ka Karachi Mission
کراچی کی سیاست بدل گئی
karachi ki siasat Badal Gaye
کراچی سیوریج کا نظام درہم برہم
Karachi Sewerage Ka Nizaam Darham Barhaam
کراچی کی تعمیرات حکومتی اور بلدیاتی ادارے
Karachi Ki Tameeraat
کراچی سے متعلقہ
پاکستان کے مزید مضامین
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
مقبرہ جانی خان
-
خاموش سلطنت، میانی صاحب قبرستان
-
جاوید منزل کی تاریخی اہمیت
-
کھابے ، گلگت بلتستان کے ۔۔۔
-
چنیوٹ کا تاج محل
-
میانوالی (پنجاب کا پختونخواہ)
-
علی چوہدری کی”ڈیجیٹل سلطنت“
-
پاک بحریہ: سات دہائیوں کی داستان
-
بلواکانومی کی ترقی کے لیے سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کرنے کی ضرورت
-
جھوٹ کے نقصانات اور ہمارا معاشرہ
-
اسلام آباد میں کرونا وائرس کی حقیقی صورت حال