سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کا اجلاس

منگل 25 ستمبر 2018 22:10

سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کا اجلاس
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2018ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے کیمپ آفس ہال میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ اجلاسوں میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد، سینیٹر مولا بخش چانڈیو کے سینیٹ اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد ایئر پورٹ پر سہولیات کی کمی اور بدانتظامی، نیو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اے ایس ایف سٹاف کیلئے رہائشی کیمپس کی تعمیر، ذیلی کمیٹی برائے ایوی ایشن کی رپورٹ کے علاوہ شاہین ایئر لائن کی حجاج کیلئے پروازیں اور درپیش مسائل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ نیو اسلام آبا د ایئر پورٹ اچھا ہے مگرمسافروں کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، باتھ روم کی حالت اچھی نہیں، معذور افراد کیلئے موثر سہولیات نہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جہاز ایئر پورٹ پہنچتا ہے تو سول ایوی ایشن کے عملے کو بلانے کیلئے پائلٹ کو اعلان کرنا پڑتا ہے۔ بورڈنگ کارڈ والی جگہ پر بے تحاشا رش ہوتا ہے۔

انٹر نیشنل روانگی پرمعذور مسافروں کیلئے باتھ روم نہیں ہے۔ بزرگ شہریوں کیلئے مختصر راستہ نکالا جائے۔ گاف کارٹ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ مسافروں کو آدھا آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔خواتین کو بھی بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ دنیا بھر کے ایئر پورٹس میں معذور شہریوںکیلئے سہولیات ہوتی ہیں اور ایئر پورٹ کے لائونج میں داخل ہوتے ہی 500 روپے وصول کر لیے جاتے ہیں، سامان گاڑی تک چھوڑنے کے بھی 500 روپے لیتے ہیں۔

پاکستانیوں کیلئے روانگی کائونٹر صرف دو ہیں باقی سب غیر ملکیوں کیلئے ہیں۔ ریسٹورنٹ ، دکانیں نہیں ہیں۔ اور پارلیمنٹرین کے ٹکٹ کو ان کا سسٹم قبول ہی نہیں کرتا۔ ہم وائوچر کے ذریعے آتے جاتے ہیں جس پر سیکرٹری ایوی ایشن محمد ثاقب عزیز نے کہا کہ اراکین کمیٹی کی تمام شکایات درست ہیںمگر ایئر پورٹ کا افتتاح وقت سے پہلے کر دیا گیا تھا، نیا سٹاف بھرتی نہیں ہو سکا ، سٹاف دیگر ایئر پورٹس سے حاصل کیا گیا ہے۔

ایئر پورٹ پر کام کی ضرورت ہے عوام کو سہولیات ملنی چاہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اداروں کا فرض ہے اراکین کمیٹی نے جتنے مسائل کی نشاندہی کی ہے ان کو جلد سے جلد حل کیا جائے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق مسافروں کیلئے سہولیات کو یقینی بنایا جائے اور کمیٹی کو اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔

کمیٹی نے بزرگ شہریوں کیلئے ایک لائونج بنانے کی بھی سفارش کر دی۔سیکرٹری ایوی ایشن نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ حکومت کی کیبنٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ ایئر پورٹس کی تمام سہولیات کو آئوٹ سورس کیا جائے اور اس حوالے سے ایک ٹینڈر بھی جاری کیا تھا کہ ایک کمپنی ایئر پورٹ کے حوالے سے تمام سہولیات فراہم کرے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایئر پورٹ کو اندر سے بھی پرکشش بنایا جائے اس کیلئے پرائیوٹ کمپنیوں سے مدد لی جا سکتی ہے۔

رکن کمیٹی میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ کوئٹہ ایئر پورٹ جتنے وقت میں بہتر کیا جارہا ہے اتنے وقت میں ایک نیا ایئر پورٹ بن سکتا ہے صرف ایک جیٹی لگی اور وہ بھی اپریشنل نہیں ہے۔ جس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ اپریٹر کی کراچی میں تربیت ہو رہی ہے دو ہفتے بھی اپریشنل ہو جائے گی۔ سینیٹر فدا محمد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پشاور ایئر پورٹ کا90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔

اکتوبر کے آخر میں تمام کام مکمل ہو جائے گا۔ اے ایس ایف سٹاف کے رہائشی بلاکس کی تعمیر کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 20 ایکڑ زمین پر بلاکس تعمیر کیے جائیں گے جس میں ٹرینگ گرائونڈ ، ایڈمن بلاک ، میڈیکل سینٹر اور ایک بڑی مسجد بھی شامل ہے۔2577 افراد کیلئے بلاکس تعمیر کیے جارہے ہیں۔1400 لوگ منتقل ہو چکے ہیں بقیہ پرانے کیمپس میں ہیں۔66 ملین کا کیس وزارت خزانہ میں بھیجا ہوا ہے مگر ابھی تک فنڈ فراہم نہیں کیا گیا۔

قرض لے کر کام کیا جارہا ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے وزارت خزانہ سے فنڈ کی سفارش کر دی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2038 ملین کا منصوبہ تھا جو بعد میں ترمیم سے 2696 ملین کا ہوگیا اس میں کچھ چیزیں شامل کی گئی تھیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ امانت حسین کنسٹرکشن کمپنی نے 40 کروڑ کم کی بڈنگ دی تھی۔اس کمپنی کو 1622 ملین کا ٹھیکہ دیا گیا جس نے 1066 ملین کا کام کر دیا ہے منصوبے کی72 فیصد پراگرس ہے۔

جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ کمپنی نے ایک مخصوص حد سے نیچے ٹینڈر دیا تھا وہ بھی پاکستان کے باشندے ہیں ان کے مسئلے کو حل کیا جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ان کو مراعات دینے اور ٹیکس کم کرنے کی سفارش کی جائے گی۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں امانت حسین کمپنی سے اس حوالے سے بریفنگ لینے کا فیصلہ بھی کیا۔ کمیٹی اجلاس میں ذیلی کمیٹی برائے سول ایوی ایشن کی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

شاہین ائیر لائن کی حجاج کیلئے پراوزوں کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن حسن بیگ نے کمیٹی کو بتایا کہ شاہین ایئر لائن کو حج کا 30 ہزار کا کوٹہ دیا گیا تھا سعودی عرب میں ان کی کچھ ادائیگی کے مسائل تھے جس کی وجہ سے انہیں اجازت نہیں ملی پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے کوٹہ کم کر کے پہلے 22 ہزار اور پھر 11 ہزار کر دیا پھر بھی بہتری نہ ہونے پر بلوچستان سے 5 ہزار حاجیوں کو ملتان اور کراچی پہنچانے کا کہا گیا ان کے لیز کے جہازوں کی ادائیگی کے مسائل تھے۔

کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ شاہین ایئر لائن کا صرف ایک جہاز ہے اور 1150 حجاج ابھی سعودی عرب ہیں جن کو کمپنی نے لانا ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پی آئی اے کے خلاف میڈیا میں بڑی خبریں آتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ منی لانڈرنگ اور اسمگلنگ میں پی آئی اے کا عملہ استعمال ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایئر لائن کی اصل کمائی کارگو سے ہوتی ہے۔

مارکیٹنگ اور انجینئرنگ سے اہم شعبے ہیں اگر مارکیٹنگ اور صحیح فیصلے کیے جائیں اور اندر کی خبریں لیک نہ ہوں تو خسارے ختم ہو سکتے ہیں۔ انجینئر نگ کے پارٹس میں بڑی خر د برد کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ایئر پورٹ پر سہولیات کو آئوٹ سورس کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا عملہ بھی کم ہوتا ہے۔ پاکستان میں آمدن کا سب سے کم ملازمین پر خرچ کیا جاتا ہے۔

انہوں کہا کہ ٹرپل سیون جہاز کی فرنیشنگ کیلئے 7 ارب روپے دیئے گئے جو ایک بندہ فراڈ کر کے بھاگ گیا۔ ادارے کو ان چیزوں پر نظر رکھنی چاہئے اور میڈیا بھی ملازمین کے خلاف لکھنے کی بجائے ان چیزوں پر توجہ دے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز فدا محمد، حاصل خان بزنجو، سید مظفر حسین شاہ، مولا بخش چانڈیو کے علاوہ سیکرٹری ایوی ایشن محمد ثاقب عزیز، ڈی جی سول ایوی ایشن حسن بیگ، ڈائریکٹر کمرشل سٹیٹ سول ایوی ایشن، ڈائریکٹر ہیومن ریسورس، چیف نیسپک، ڈائریکٹر نارتھ اے ایس ایف اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں