آڈیو لیک کا معاملہ، جن کا کیس ہے انہوں نے عدالت آنے میں دلچسپی نہیں لی

فرض کریں آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کہاں کس کے پاس ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 29 نومبر 2021 10:54

آڈیو لیک کا معاملہ، جن کا کیس ہے انہوں نے عدالت آنے میں دلچسپی نہیں لی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 نومبر 2021ء) : اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیک سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کی آڈیو ٹیپس ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟ ایسی تحقیقات سے کل کوئی بھی کلپ لا کر کہے گا تحقیقات کریں۔ تفصیلات کے مطابق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ اور عدلیہ پر دیگر الزامات کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس اسلام اباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیوٹیپ کی تحقیقات کےلیےکمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت سماعت ہوئی۔ یہ درخواست صدرسندھ ہائیکورٹ بارصلاح الدین احمد اورجوڈیشل کمیشن کےممبر سید حیدرامام رضوی نے دائر کی۔ درخواست گزار نے کہا کہ عدلیہ پر الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے، عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے آڈیو جعلی ہے یا اصلی ہے تعین کرنا ضروری ہے۔

(جاری ہے)

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ بتا دیں کہ یہ پٹیشن قابل سماعت کیسے ہے؟ کس کے خلاف رٹ دائر کی گئی؟ آپ کی درخواست حاضرسروس چیف جسٹس کےآڈیوکلپ سےمتعلق ہے۔ جس پر درخواست گزار نے کہا کہ درخواست موجودہ چیف جسٹس نہیں بلکہ سابق چیف جسٹس پاکستان کے آڈیو کلپ سے متعلق ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل ایکٹیوازم کے باعث پہلے ہی عدلیہ کو بہت نقصان ہوچکا ہے، چیف جسٹس پاکستان کی آڈیو ٹیپس ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟ کیا انہوں نے یہ ریلیز کی یا کسی امریکہ میں بیٹھے ہوئے نے؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ فرض کریں آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کہاں کس کے پاس ہے؟ہم ایسےمعاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کسی ریگولیشن کے بغیر ہے، اس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہی بات تکلیف دہ ہےکہ سوشل میڈیا پریہ چیز وائرل ہوئی اوراس پرڈسکشن بھی ہورہی ہے۔

روزکچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے،آپ کس کس بات کی انکوائری کروائیں گے؟ اُن کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی کس کس چیز پر آپ انکوائری کریں گے، میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ کوئی فلیٹ لے لیا، کیا اس کی انکوائری کرنے بیٹھ جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جن کے کیسز سے متعلق ٹیپ ہے انہوں نے معاملہ عدالت لانے میں دلچسپی نہیں دکھائی، مختلف سیاسی قوتیں مختلف بیانیے بناتی ہیں مگر عدالت نہیں آتیں، جب وہ عدالت نہیں آتے تو کورٹ کو یہ بھی دیکھنا ہے نیت کیا ہے، آڈیو ٹیپ کس نے ریلیز کی اور کسے ریلیز کی؟ کیا ہم ان کے ہاتھ میں کھیلیں جنہوں نے یہ کیا ؟ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہلےاٹارنی جنرل کو پری ایڈمشن نوٹس جاری کریں گے اور اس درخواست کےقابل سماعت ہونے پر بات کریں گے، عدالت نے صرف قانون کے مطابق حقائق کو دیکھنا ہے، جوڈیشل ایکٹوزم میں نہیں جانا، عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی فلڈ گیٹ نہیں کھل جائے۔

درخواست گزار صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ جو اصل متاثرہ فریق ہیں وہ سامنے نہیں آتے یہی مسئلہ ہے۔ پاکستان بار کونسل نے قرار داد منظور کی لہٰذا عدالت مناسب سمجھے تو انہیں بھی نوٹس کردے۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اٹارنی جنرل سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا اور کیس میں پری ایڈمیشن نوٹس جاری کرکے آٹھ دسمبر کو جواب طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کر دی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں