شہبازشریف کی سفارش پر رانا ثنا اللہ خان کی وزیراعظم کے مشیرمقرر‘عہدہ وفاقی وزیرکے برابرہوگا

عام انتخابات میں ہارنے والے نون لیگی راہنماﺅں کو مرکزاورپنجاب میں عہدے دیئے جائیں گے.ذرائع‘ جن سیاسی راہنماﺅں کو عوام مسترد کردیتے ہیں سیاسی جماعتیں انہیں چوردروازوں سے اقتدار میں لے آتی ہیں اگر ہم اخلاقیات قائم نہیں کرسکتے تو انتخابی عمل کو بند کردینا چاہیے‘اعلی عدالتیں اس پر ازخودنوٹس کیوں نہیں لیتیں؟.سیاسی مبصرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 1 مئی 2024 13:33

شہبازشریف کی سفارش پر رانا ثنا اللہ خان کی وزیراعظم کے مشیرمقرر‘عہدہ وفاقی وزیرکے برابرہوگا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم مئی۔2024 ) صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیراعظم کی سفارش پر مسلم لیگ نون کے راہنما رانا ثنا اللہ خان کی وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعیناتی کی منظوری دے دی ہے. وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناءاللہ خان کو وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہو گا صدر مملکت نے رانا ثنا اللہ خان کی تعیناتی کی منظوری وزیر اعظم کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 93 (ایک) کے تحت دی ہے.

(جاری ہے)

گذشتہ روز نجی چینل کے پروگرام رانا ثنا اللہ نے حکومتی عہدہ ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس حوالے سے میری وزیراعظم سے ملاقات بھی ہوئی تھی مگر بہرحال ہمارا فیصلہ تھا کہ اس معاملے پر پارٹی لیڈر فیصلہ کریں اور یہ معاملہ ان کے پاس ہے وہی اس پر فیصلہ کریں گے. ادھر ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے مسلم لیگ نون کے قائداور سابق وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر جماعت کے ناراض راہنماءعام انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے انہیں مرکزی اور پنجاب حکومت میں عہدے دیئے جائیں گے رانا ثناءاللہ بھی فیصل آباد سے ابھی نشست پر ہار گئے تھے اسی طرح میاں جاوید لطیف کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں مرکزی حکومت میں مشیر بنانے پر غور ہورہا ہے ان کا عہدہ بھی وفاقی وزیرکے برابرہوگا.

پنجاب میں بھی ناراض راہنماﺅں کا مختلف عہدوں پر تقررکیا جائے گا پنجاب اور لاہور ڈویژن کے مختلف اداروں کی سربراہی مسلم لیگ نون کے ناراض راہنماﺅں کو دی جارہی ہے یہاں تک کہ غیرفعال لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی سربراہی کے لیے بھی ایک نون لیگی راہنماءکے نام کی منظوری میاں نوازشریف نے دی ہے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی(لیسکو )کی چیئرمین شپ انتخابات میں شکست کھانے والے مسلم لیگ نون کے حافظ نعمان کے پاس ہے .

سیاسی مبصرین کے نزدیک بدقسمتی سے پاکستان میں یہ بدترین روایت ہے کہ وہ سیاسی راہنماءجنہیں عوام مسترد کردیتے ہیں سیاسی جماعتیں انہیں چور دروازوں سے اقتدار کے ایوانوں میں لے آتی ہیں ایک طرف سیاسی جماعتیں عوامی مینڈیٹ کے احترام کی بات کرتی ہیں تو دوسری جانب اسی عوام کی جانب سے مستردکردہ لوگوں کو وزیروں کے عہدوں کے برابرعہدوں سے نوازا جاتا ہے عوام کی جانب سے مستردشدہ سیاسی لوگوں کو تو اخلاقی طور پر خود ہی کوئی عہدہ لینے سے معذرت کرلینی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ انتخابات میں ہار جانے والوں کو نوازنے کی بجائے انہیں آئندہ انتخابات پر پارٹیوں میں ذمہ داریاں دیں ناں کہ انہیں اسی عوام کی گردنوں پر مسلط کردیں جنہوں نے انہیں مسترد کیا ہے.

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اخلاقی روایات قائم کرنا بہت ضروری ہیں اگر 75سالوں میں ہم ایسی اخلاقی روایات بھی قائم نہیں کرسکے تو یہ بہت بڑی ناکامی ہے اور اگر سیاسی جماعتوں نے خود ہی سب کچھ طے کرنا ہے تو پھر آئین میں ترمیم کرکے الیکشن کا عمل ختم کردیا جائے اور مقتدرقوتوں اور سیاسی جماعتوں کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس کو جس عہدے کے لیے چاہیں نامزد کردیں تاکہ اربوں روپے کے انتخابی اخراجات اور الیکشن کمیشن پر سالانہ اربوں روپے کا خرچ بچ جائیں انہوں نے کہا کہ اعلی عدالتوں کو نظرنہیں آتا یہ سب وہ اس پر ازخود نوٹس کیوں نہیں لیتیں؟.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں