آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کے 24ویں بیل آﺅٹ پیکج کے لیے مذکرات شروع

ٹیکس جمع کرنے میں اضافہ عوام کواعتماد میں لیے بغیرممکن نہیں حکومت کو یقین دلانا ہوگا ٹیکس کے پیسے ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے‘ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں عام پاکستانی شہری ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ شرح میں ٹیکس اداکررہے ہیںجبکہ پاکستان فی کس اوسط آمدنی کے حساب سے دنیا کے کمزورترین ممالک میں سے ہے.ماہرین معاشیات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 14 مئی 2024 13:42

آئی ایم ایف کے ساتھ 6ارب ڈالر کے 24ویں بیل آﺅٹ پیکج کے لیے مذکرات شروع
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14مئی۔2024 ) پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشن نے حکام سے ابتدائی مذاکرات شروع کر دیے ہیں جس کے تحت اسلام آباد کو نیا بیل آﺅٹ پیکج فراہم کرنے کے لیے غور کیا جارہا ہے. معاشی ماہرین کا کہنا ہے چھ ارب ڈالر کا نیا پروگرام پاکستان آئندہ تین برس کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے اگر یہ بیل آﺅٹ پیکج اسلام آباد کو مل گیا تو یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا 24واں پروگرام ہوگا ماہرین اور خود آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کو خبردار کیا ہے کہ مالیاتی عدم توازن پر قابو پانے کے لیے ملکی آمدنی میں اضافہ ناگزیر ہے جس کے لیے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ معاشی واجبات کو کم کیا جا سکے.

(جاری ہے)

پاکستان کو اپنے قیام کے 76 برس بعد بھی لگ بھگ ہر تین سال میں آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ماہر معاشیات ڈاکٹر عبد العظیم نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہونے کے باعث پیدا ہونے والا خسارہ ہے . انہوں نے کہا کہ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو روپے کی صورت میں قومی بینکوں سے اور غیر ملکی کرنسی کی صورت میں ضرورت پڑنے پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ممالک سے قرض لینا پڑتا ہے صورتِ حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ پاکستان کو قرضہ ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لینا پڑتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے جہاں اخراجات کو کم کرنا ضروری ہے وہیں آمدنی کو بڑھانا بھی ناگزیر ہے اور اس کے لیے مواقع بھی موجود ہیں انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی آمدنی جسے محصولات بھی کہتے ہیں انہیں بڑھانے کے لیے بہت سے سیکٹرز پر ٹیکس عائد کرنے کی ضرورت ہے جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر رہے ہیں یا بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ایسے میں وہی لوگ زیادہ ٹیکس دینے پر مجبور ہیں جو پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں.

تاہم بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں عام پاکستانی شہری ترقی یافتہ ملکوں سے زیادہ شرح میں ٹیکس اداکررہے ہیںجبکہ پاکستان فی کس اوسط آمدنی کے حساب سے دنیا کے کمزورترین ممالک میں سے ہے اسی طرح 76سالوں میںحکومتیں عام شہریوں کو یقین دلانے میں ناکام رہی ہیں کہ ٹیکس ان پر خرچ ہونگے کیونکہ پاکستان میں عوامی فلاح وبہبود کا کوئی موثر نظام نہیں.

ڈاکٹر عبدالعظیم نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت زراعت کی ہے اور یہ قومی آمدنی میں 20 فی صد تک حصہ دار ہے لیکن یہیں ٹیکس کی وصولی کی شرح سب سے کم ہے انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد زراعت چوں کہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اس لیے زرعی آمدنی پر ٹیکس بھی صوبے وصول کرنے کے مجاز ہیں. انہوں نے کہاکہ پاکستان اکنامک ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 میں تمام صوبائی حکومتوں نے مجموعی زرعی انکم ٹیکس صرف 2.4 ارب روپے اکھٹا کیا حالانکہ یہ ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت 800 ارب روپے تک ہے اور اگر صوبوں کی طرف سے اس ٹیکس کی مناسب وصولی کی جائے تو وفاق کے مجموعی مالیاتی خسارے کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے.

انہوں نے کہاکہ اس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے جو گزشتہ سال 9.2 فی صد اور اس سال کی تین سہ ماہیوں میں محض 6.9 فی صد ریکارڈ کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ نہ صرف زراعت بلکہ ریئل اسٹیٹ، ٹرانسپورٹ اور دیگر کئی شعبوں میں کام کرنے والوں کے علاوہ ملک میں تاجر بالخصوص ریٹیلرز کی اکثریت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور انہیں بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی کئی کوششیں ماضی میں ناکام ہو چکی ہیں.

ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران، خوردہ فروشوں نے تنخواہ دار طبقے کی جانب سے ادا کیے گئے 217 ارب روپے کے مقابلے میں محض 11اعشاریہ2 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا. پاکستان کی معیشت پر اپنی حالیہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ریٹیلرز سے اضافی محصولات اکٹھا کرنے کی کوششوں میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ملک کے تمام صوبائی دارالحکومتوں اور وفاقی دارالحکومت کے تاجروں کے لیے رجسٹریشن اسکیم بھی شروع کی ہے تاہم اب تک رضاکارانہ طور پر خود کو رجسٹر کرانے والے تاجروں کی تعداد انتہائی کم بتائی جاتی ہے.

معاشی امور کے ماہرخرم شہزاد نے کہا کہ پاکستان کا نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) دنیا کے بہترین ڈیٹا بینکس میں سے ایک ہے اور اس کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکس نادہندگان کو ڈھونڈنا مشکل نہیں انہوں نے کہا کہ سمز بند کرنے سے ٹیلی کام آپریٹرز کے خدشات پیدا ہوں گے اوران کی آمدنی پر اثر پڑنے کے علاوہ قانونی پیچیدگیاں بھی آڑے آسکتی ہیں اس لیے اس کے بجائے دیگر آپشنز پر غور کیا جانا چاہیے.

انہوں نے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کو بھی اس بات پر قائل نہیں کیا جا سکا ہے کہ وہ اپنے کھاتہ داروں کے اکاﺅنٹس میں موجود رقوم کی تفصیلات ایف بی آر کے ساتھ شئیر کریں اس کے لیے حکومت کو سوچ بچار کے ساتھ قانون سازی کرنی پڑے گی اور سزا کے بجائے لوگوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے مراعات دینی ہوں گی اس کے علاوہ حکومت کوعوام کو یقین دلانا ہوگا کہ ان کے ٹیکس کے پیسے ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جائیں گے.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں