عدالت نے جج ارشد ملک کو واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کا حکم دے دیا

جج ارشد ملک کو یہاں رکھ کر حکومتی تحفظ دیا جا رہا ہے۔جج ارشد ملک کے خلاف کاروائی لاہورہائیکورٹ کر سکتی ہے۔حکومت نے ارشد ملک کو اپنے پاس کیوں رکھا ہے؟۔ چیف جسٹس کے ریمارکس

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 20 اگست 2019 14:04

عدالت نے جج ارشد ملک کو واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کا حکم دے دیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 20 اگست 2019ء) : عدالت نے جج ارشد ملک کو واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کا حکم دے دیا۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کے جج ارشد ملک کو یہاں رکھ کر حکومتی تحفظ دیا جا رہا ہے۔

جج ارشد ملک کے خلاف کاروائی لاہورہائیکورٹ کر سکتی ہے۔حکومت نے ارشد ملک کو اپنے پاس کیوں رکھا ہے؟۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے رپورٹ سے ابہام پیدا ہوا ہے غالبا دو ویڈیوز تھی۔قابل اعتراض ویڈیو وہ تھی جس سے جج کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسری ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔

(جاری ہے)

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ناصر جنجوعا اور مہر غلام جیلانی نے جج سے ملاقات کرکے 10 کروڑ روپے کی پیشکش کی تھی۔

اس کیس میں دو اہم کردار اس وقت ملک میں نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جج ارشد ملک کا ایک ماضی ہے جسے وہ مان رہے ہیں انہیں تو کوئی بھی بلیک مل کر سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا ارشد ملک کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کیوں نہیں کرتے ؟ کیا جج ایسا ہوتا ہے جو سزا دینے کے بعد مجرم کے پاس جائے۔وفاقی حکومت نے انہیں ابھی تک پاس کیوں رکھا ہوا ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحقیقات کی وجہ سے ارشد ملک کو روک رکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہا ارشد ملک کو لاہور ہائیکورٹ بھجواکر تحفظ دیا جا رہا ہے۔دوران سماعت ویڈیو سکینڈل کے ایک درخواست گزار کے وکیل نے ایف آئی اے کی تحقیقات پر بھی اعتراض اٹھایا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ویڈیو کے معاملے کی آپ تحقیقات کرائیں فرانزک ہو سکتی ہے یا نہیں۔

جج کے کردار کی حد تک معاملہ ہم دیکھ سکتے ہیں۔جج کے کردار سے ججز کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔آپ اس معاملے کو ہلکا کیوں لے رہے ہیں۔جج خود مان رہا ہے کہ اس کے خاندان کے ساتھ تعلقات ہے۔دوران سماعت اکرام چوہدری نے کہا کمیشن کے ذریعے تحقیقات کی جائیں اور سپریم کورٹ مانیٹرنگ کرے۔
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سماعت پر ایف آئی اے سے انکوائری رپورٹ طلب کی تھی. عدالتی حکم کی روشنی نے ایف آئی اے نے ویڈیو اسکینڈل پررپورٹ تیار کر لی ہے‘ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے کی انکوائری ٹیم نے شہبازشریف اورمریم نواز سے تفتیش کی شہبازشریف نے دوران تفتیش سارا معاملہ مریم نواز پر ڈال دیا جبکہ مریم نواز نے ناصر بٹ کو ذمہ دار قرار دے دیا. مریم نواز نے کہا ہے کہ جج کی ویڈیو بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں، ویڈیو ناصر بٹ نے بنائی ویڈیو اسکینڈل کی انکوائری مکمل نہیں ہوئی اور تاحال تفتیش جاری ہے. واضح رہے کہ جولائی میں پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو دکھایا گیا تھا‘ارشد ملک وہی جج ہیں جنھوں نے گذشتہ سال نواز شریف کے خلاف ہل میٹل اور فلیگشپ ریفرنسز میں فیصلہ سنایا تھا. مریم نواز نے اپنے الزامات میں کہا کہ پاناما مقدمے میں نواز شریف کو جیل بھیجنے والے جج ارشد ملک پر نامعلوم افرادکی طرف سے دباﺅ تھا. اس کے جواب میں پہلے ارشد ملک نے پہلے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں انھوں نے مریم نواز کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی اور اس کے بعد انھوں نے چار صفحات پر مبنی ایک حلفیہ بیان پیش کیا. 10جولائی کو مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پرمزید دو ویڈیوز جاری کیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ یہ جج ارشد ملک کی ہیں. اپنی پریس پریس کانفرنس میں مریم نواز یہ بھی کہا تھا کہ جس جج کے فیصلے کے مطابق نوازشریف 7 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں وہ خود ہی اپنے جھوٹے فیصلے کی خامیوں پر سے پردہ اٹھا رہے ہیں. مریم نواز نے کہا کہ جج نے ناصر بٹ کو بتایا کہ کچھ لوگوں نے مجھے کسی جگہ پر بلایا میرے سامنے چائے رکھی اور سامنے سکرین پر ایک ویڈیو چلا دی وہ لوگ اٹھ کر باہر چلے گئے اور تین چار منٹ بعد واپس آئے تو ویڈیو ختم چکی تھی، انھوں نے مجھ سے پوچھا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے ناں؟ کوئی بات نہیں ایسا ہوتا ہے. مریم نواز کے مطابق گفتگو کے دوران جج ناصر بٹ کو بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ خود کشی کے علاوہ کوئی رستہ بھی نہیں چھوڑتے اور ایسا ماحول بنا دیتے ہیں کہ بندہ اس جگہ پر ہی چلا جاتا ہے جہاں پر وہ لے کر جانا چاہتے ہیں.

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں