جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل :لاہور ہائی کورٹ کے 7 سینئر ترین ججز پر مشتمل انتظامی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوگیا

ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ویڈیو سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہیں. رجسٹرار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 اگست 2019 12:44

جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل :لاہور ہائی کورٹ کے 7 سینئر ترین ججز پر مشتمل انتظامی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوگیا
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 اگست۔2019ء) احتساب عدالت کے معطل جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل کے معاملے کا جائزہ لینے کے لئے لاہور ہائی کورٹ کے 7 سینئر ترین ججز پر مشتمل انتظامی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوگیا، اجلاس کی صدارت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم احمد خان کر رہے ہیں. رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا خط گزشتہ روز موصول ہوگیا تھا، جج ارشد ملک کو معطل کردیا گیا ہے جبکہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں رپورٹ بھی کر دیا ہے.

(جاری ہے)

لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ویڈیو سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہیں، کمیٹی کی تجاویز کی روشنی میں تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا. واضح رہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم احمد خان کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی کے دیگر ارکان میں سینئر جج جسٹس مامون الرشید شیخ، جسٹس قاسم خان، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس ملک شہزاد احمد خاں شامل ہیں.

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں پانچ ایشو سامنے آئے پہلا یہ تھا کہ کونسا فورم ویڈیو پر فیصلہ دے سکتا ہے‘ دوسرا یہ کہ ویڈیو کو اصل کیسے جانا جائے‘ تیسرا معاملہ یہ تھا کہ اگر ویڈیو اصل ہے تو عدالت میں کیسے ثابت کیا جا سکے گا، چوتھا پہلو یہ تھا کہ ویڈیو اصل ثابت ہونے پر نواز شریف کی سزا پر کیا اثر ہو سکتا ہے، جبکہ پانچواں معاملہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے کنڈکٹ سے متعلق تھا.

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ اس مرحلے پر ہمارا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہوگا، ایک اپیل ہائیکورٹ میں زیر التواءہے تو ہماری مداخلت ٹھیک نہیں، ایف آئی اے میں بھی معاملے کی تحقیقات جاری ہیں، وڈیو درست ثابت ہونے پر ہائیکورٹ خود معاملے کا جائزہ لے سکتی ہے اور وڈیو کا معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھی بھجوا سکتی ہے، ہائیکورٹ فریقین کی درخواست پر اضافی شواہد کا جائزہ لینے کی مجاز ہے تاہم ہائیکورٹ کو اضافی شواہد قبول کرنے کی وجوہات بتانا ہوں گی.

سپریم کورٹ نے وڈیو اسکینڈل کیس میں کمیشن بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ویڈیو کی تحقیقات متعلقہ ایجنسیوں کا اختیار ہے، اگر حکومتی کمیشن بنتا بھی ہے تو اس کی فائنڈنگ محض ایک رائے ہوگی جس کا ہائیکورٹ میں زیر التواءمقدمے سے کوئی تعلق نہیں،عدالتی یا حکومتی کمیشن کی رائے کا بھی نواز شریف کو فائدہ نہیں ہو سکتا، اگر متعلقہ ویڈیو جج ارشد ملک کا تعصب ثابت کرنے لیے ہائیکورٹ میں پیش کی جائے، تو ہائیکورٹ میں پیش کرنے اور ویڈیو کی اصلیت ثابت کرنے سے نواز شریف کو فائدہ ہوگا.

فیصلے میں کہا گیا کہ جج ارشد ملک کے مطابق ویڈیو کو توڑ مروڑکر پیش کیا گیا، ویڈیو کی تصدیق فرانزک تحقیقات سے ہو سکتی ہے، فوجداری مقدمہ میں شک و شبہ سے بالاتر شواہد کا ہونا ضروری ہے، ویڈیو کی ساکھ کے حوالے سے کسی بھی قسم کا شک و شبہ اسے مسترد کر دیتا ہے. سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جج ارشد ملک کی پریس ریلیزاور بیان حلفی ان کیخلاف فرد جرم ہے اور ان کا کردار پوری عدلیہ پراثراندازہورہا ہے، انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کا ماضی مشکوک ہے جس کی وجہ سے وہ بلیک میل ہوئے، انہوں نے دھمکیوں اور رشوت کی پیش کش کے باوجود نواز شریف کے کیس کی سماعت سے معذرت نہیں کی.

سزادینے کے بعد جج ارشدملک نے ملزم سے اس کے گھرمیں ملاقات کی، وہ مقدمے کے بعد ملزمان کے بیٹے اور ہمدردوں کے ساتھ بھی ملتے رہے، انہوں نے مجرم کو اپنے ہی فیصلے کے کمزور نکات بتائے، انہوں نے رشوت کی پیشکشوں اور دھمکانے کی شکایت سینئر اتھارٹی سے نہیں کی، ان کا طرزعمل حیران کن ہے، ان کے کردار نے ہزاروں ایماندار ججز کے سر شرم سے جھکا دیئے، ہمیں امید ہے کہ جج ارشدملک کیخلاف لاہور ہائیکورٹ انظباطی کارروائی کریگی.

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں