پنجاب حکومت ہتک عزت بل“جبکہ وفاقی حکومت ”پیکا ترمیمی ایکٹ“ آزادیوں کے خلاف قراردیتے ہوئے مستردکردیا

اعلی عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان‘عالمی صحافتی تنظیموں سے بھی رابطے کیئے جائیں گے‘وکلاءتنظیموں سے مشاورت اور رابطوں کا آغازکردیا گیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 14 مئی 2024 22:56

پنجاب حکومت ہتک عزت بل“جبکہ وفاقی حکومت ”پیکا ترمیمی ایکٹ“ آزادیوں کے خلاف قراردیتے ہوئے مستردکردیا
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14مئی۔2024 ) ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے پنجاب حکومت کے مجوزہ ”ہتک عزت ترمیمی بل 2024“کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف اعلی عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے ‘صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت ہتک عزت بل“جبکہ وفاقی حکومت ”پیکا ترمیمی ایکٹ“ صحافتی آزادیاں سلب کرنے کے درپے ہے‘صحافیوں نے اپنی آزادیوں کے لیے مارشل لاءکے ادوار کے کالے قوانین کو نہیں مانا اور قربانیاں دیں ہم اب بھی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں .

(جاری ہے)

پنجاب حکومت کے مجوزہ ہتک عزت بل میں کہا گیا ہے کہ’ ’جھوٹی من گھڑت اور بے بنیاد خبروں“ پروپیگنڈے یا کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر سزائیں دی جائیں گی نیز اس قانون کا اطلاق پرنٹ، الیکڑانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ان تمام جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہو گا جس سے کسی فرد یا ادارے کا تشخص خراب ہو. حکومتی بل کے مطابق قانون کا اطلاق ان جھوٹی خبروں کے تدارک کے لیے کیا جائے گا جو کسی شخص کی پرائیویسی اور پبلک پوزیشن کو خراب کرنے کے لیے پھیلائی جائیں گئیں ہتک عزت آرڈینس 2002 اس قانون کے اطلاق کے بعد سے تبدیل ہو جائے گا اس قانون کا اطلاق اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد گورنر کی منظوری سے صوبے بھر میں کر دیا جائے گا.

وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ”ہتک عزت بل“ میں خصوصی ٹربیوبل بنایا جا رہا ہے جو چھ ماہ میں ہتک عزت کے دعوے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا اس قانون سے میڈیا پر پابندی کا تاثر غلط ہے ہم صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے کو روکنے کی حکمت عملی بنا رہے ہیں. جنرل سیکرٹری پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس رانا عظیم نے ہتک عزت کا ترامیمی بل 2024 مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ پر صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں نہ لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت میڈیا کا گلا دبانا چاہتی ہے ہم اس بل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں.

ہتک عزت ترامیمی بل 2024میں کہا گیا ہے کہ براڈکاسٹنگ یا براڈکاسٹ کا مطلب ہر قسم کی تحریروں، مکالموں، تصاویر اور آوازوں کو کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس پر پھیلانا ہے جس کا مقصد عوام کو معلومات پہنچانا ہو اس قانون میں کوئی بھی شہری یا شخصیت مدعی بن کر سیکشن11 کے تحت ٹربیونل کو ہرجانے اور اخراجات کے لیے درخواست دے سکے گا. کسی کے خلاف جھوٹ پھیلانے یا پروپیگنڈہ کرنے پر دعویٰ کرنے والے کے الزامات کا مدعا علیہ دفاع کرنے کا حق رکھتا ہو گا الزام لگانے والے کو ٹربیونل میں ثبوت بھی پیش کرنا ہوں گے اس قانون کے مطابق جن آئینی دفاتر کو تحفظ حاصل ہے ان میں صدر، گورنر، چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز، وزیر اعظم، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، قومی اسمبلی کے سپیکر شامل ہیں.

سینیٹ کے چیئرمین، وزیر اعلیٰ، صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف پاکستان آرمی اسٹاف، چیف آف دی نیول اسٹاف اور چیف آف دی ایئر اسٹاف بھی ان عہدوں میں شامل ہوں گے جن کے خلاف کوئی بھی جھوٹی خبر یا معلومات پھیلانا سنگین جرم تصور ہو گا.

اس قانون میں وہ اخراجات شامل ہیں جو ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے فریقین کو ٹریبونل کے ذریعے عائد کیے جائیں گے بل کے مطابق ”ہتک عزت“ کا مطلب ہے کسی جھوٹے یا غلط بیان کی اشاعت زبانی، تحریری یا بصری شکل میں عام ذرائع ابلاغ یا الیکٹرانک اور دوسرے جدید میڈیم، یا سوشل میڈیا کے ذریعے یا کسی بھی آن لائن ویب سائٹ کے ذریعے پھیلایا گیا ایسا بیان جو کسی شخص کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے جس کا منفی اثر ہو سکتا ہے یا اسے دوسروں کی نظر میں غیر مقبول کرنے کا رجحان رکھتا ہے یا اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید، ناپسندیدگی، حقارت کا نشانہ بنایا جاتا ہے.

اس طرح کی تنقید میں اس ایکٹ کے سیکشن 14 میں موجود بعض جنسوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے تبصرے، بیانات اور نمائندگیاں بھی شامل ہوں گی ٹربیونل لاہور ہائی کورٹ کے جج کے برابر اختیارات رکھتا ہو گا اور اسے پنجاب ڈیفیمیشن ٹربیونل کا نام دیا جائے گا ٹربیونل کے سامنے اگر مدعا علیہ اس ایکٹ کے سیکشن 13 کے مطابق دفاع میں بے گناہی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے مدعی کو 30 لاکھ روپے ادا کرنا ہوں گے ہتک عزت کرنے والا شخص اس ایکٹ کے تحت اصل نقصان یا نقصان کے ثبوت کے بغیر کارروائی شروع کر سکتا ہے اور جہاں ہتک عزت ثابت ہو جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ جس شخص نے ہتک عزت کی ہے اسے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا.

سنیئرصحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل میاں محمد ندیم نے کہا کہ مسودہ قانون یکطرفہ ہے اور اسے پڑھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا مقصد”ہتک عزت“نہیں بلکہ آزاد صحافت کا گلہ گھوٹنا ہے ‘چند روزقبل وزیردفاع خواجہ آصف یہاں تک کہہ چکے ہیں سرکاری دستاویزکو شائع کرنے یا سکرین پر دکھانے پر بھی سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ ہوگا پنجاب حکومت کا مسودہ قانون اور وزیردفاع کے بیان سے حکومت کی بدنیتی واضح ہورہی ہے.

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں تحقیقاتی صحافت کرنے والے صحافی دستاویزات کی بنیاد پر ہی تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں وفاقی حکومت کے ترمیمی پیکا ایکٹ کے تحت اس بات کا تعین کون کرئے گا کہ خبرمیں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا دستاویز”حساس اور خفیہ “ہے ؟ انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی صحافت کی بنیاد ہی ایسے دستاویزات ہوتے ہیں اور اگر صحافی دستاویزات کے بغیر خبر دے گا تو اسے”ہتک عزت“کے مقدمے کا سامنا ہوگا اور دستاویزکے ساتھ ”سیکرٹ ایکٹ“کا.

میاں ندیم نے کہا کہ جو ایسے قوانین بنوارہے ہیں ان کے بارے میں سب کو معلوم ہے ‘ہم عالمی صحافتی تنظیموں سے بھی رابطے کریں گے یہ مارشل لاءکے سیاہ ادوارکی پابندیوں سے بھی زیادہ بدترین قوانین ہیں صحافی برادری ان کے خلاف اعلی عدالتوں سے رجوع کرئے گی اس سلسلہ میں صحافتی تنظیموں کے درمیان مشاورت جاری ہے اور متوقع طور پر کل لاہوراوراسلام آباد میں پنجاب حکومت کے ”ہتک عزت قانون“اور وفاقی حکومت کے”پیکا ترمیمی ایکٹ“کے خلاف درخواستیں دائرکردی جائیں گی اس کے علاوہ اعلی عدلیہ کے ججوں ‘سیاسی راہنماﺅں ‘انسانی وشہری حقوق کی تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنزکو خطوط لکھے جائیں گے. 

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں