بلوچستان یونیورسٹی میں دل ہلا دینے والے واقعہ نے پورے معاشرے کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے،عبدالغنی رند

موجودہ صورتحال میں ہر باعزت شہری اس ڈر میں ہے کہ کس طرح اپنے بچوں بچیوں کو تعلیم دینے کے لئے یونیورسٹی بھیجیں، لسبیلہ ضلعی صدر بی ایس او(پجار) نیشنل پارٹی حب اور بی ایس او (پجار) کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی وڈیو اسکینڈل و وائس چانسلر کیخلاف احتجاجی مظاہرہ ،وائس چانسلر کیخلاف شدید نعرے بازی

اتوار 20 اکتوبر 2019 19:40

ْلسبیلہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2019ء) نیشنل پارٹی حب اور بی ایس او (پجار) کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی وڈیو اسکینڈل و وائس چانسلر کے خلاف اتوار کے روز لسبیلہ پریس کلب حب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرین نے وائس چانسلر کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا اس موقع پر نیشنل پارٹی کے صوبائی رہنما خورشید علی رند ، لسبیلہ کے ضلعی صدر عبدالغنی رند بی ایس او(پجار)بلوچستان وحدت کے صدر حنیف بلوچ، نیشنل پارٹی تحصیل حب کے صدر روشن جتوئی ،جنرل سیکریٹری جان محمد پلال، نائب صدر بلال بلوچ ،ڈپٹی جنرل سیکرٹری مٹھل فقیر شریف مری و دیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں دل ہلا دینے والے واقعہ نے پورے معاشرے کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اب ہر باعزت شہری اس ڈر میں ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں بچیوں کو تعلیم دینے کے لئے یونیورسٹی بھیج دیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ جب سے اس وائس چانسلر نے یونیورسٹی میں قدم رکھا ہے ایسے ناپاک عمل کا دور شروع ہوگیا روز اول سے یونیورسٹی کو اپنے ذاتی اڈے میں تبدیل کرکے سیکورٹی کی آڑ میں طلبا و طالبات کو ہراساں کرنے کی کوشش ہوتی رہی طالبات کے واش رومز میں خفیہ کیمرے نصب کرکے طالبات کو جنسی ہراساں کرنا ناقابل برداشت ہے بلوچ معاشرے میں عورت کو ایک اہم مقام حاصل ہے لیکن افسوس ایک تعلیمی درس گاہ میں عورت کی عزت کو پامال کرنے کا اس طرح کا عمل کسی صورت برداشت نہیں عورت کی عزت کے لئے جان دیا جاسکتا ہے اور لیا بھی جاسکتا ہے اس طرح کا پہلا واقعہ 2015 کو پیش آیا بی ایس او(پجار)نے اس واقعے کو لیکر وائس چانسلر کے پاس احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن وائس چانسلر کاروائی کرنے سے گریز کرتے رہے اسی وقت واضح ہوگیا کہ اس ناپاک عمل و ہتھکنڈوں میں وہ براہ راست شامل ہے بعدازاں احتجاج میں شدت آنے پر انتقامی کاروائی کرکے بے بنیاد و من گھڑت مقدمات بناکر طلبا تنظیموں کے رہنماوں کو گرفتار کیا گیا اور انہیں یونیورسٹی سے بھی رسٹیکیٹ کردیا گیا طلبا تنظیموں پر پابندی عائد کرکے سرکلوں کو اکھاڑہ گیا تاکہ وائس چانسلر یونیورسٹی میں اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے یونیورسٹی اسکینڈل کے سامنے آنے کے باوجود وائس چانسلر کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لانا بہت سے سوالات کو جنم دے رہی صوبائی حکومت کی اب تک رپورٹ سامنے نہ آنا بھی وائس چانسلر کو بچانے کا ایک عمل ہے۔

انہوں نے کہا اگر طلبا یونین پر پابندی نہیں ہوتی تو آج کوئی مائی کا لعل تعلیمی اداروں میں اس طرح کے برے عمل سوچ بھی نہیں سکتا ایک سازش کے تحت طلبا یونین پر پابندی عائد کرکے تعلیمی اداروں پر کاری ضرب لگائی گئی ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کو فوری گرفتار کرکے عبرتناک سزا دی جائے۔

لسبیلہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں