وسائل ہوتے تو گولڈ میڈل جیت سکتا تھا ٗ پاکستانی ایتھلیٹ حیدر علی

بیجنگ کے مقابلے میں اس بار ریو کے پیرالمپکس میں مقابلہ بہت سخت تھا حکومت بھی پیرالمپکس ایتھلیٹس کی بھرپور حوصلہ افزائی نہیں کرتی ٗانٹرویو

جمعرات 15 ستمبر 2016 19:37

وسائل ہوتے تو گولڈ میڈل جیت سکتا تھا ٗ پاکستانی ایتھلیٹ حیدر علی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔15ستمبر ۔2016ء)پاکستان کے پیرالمپکس ایتھلیٹ حیدر علی نے کہاہے کہ وسائل میسر ہوتے تو وہ ریو پیرالمپکس میں گولڈ میڈل بھی جیت سکتے تھے۔حیدر علی نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے پیرالمپکس میں لانگ جمپ مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا ٗحیدر علی آٹھ سال قبل بیجنگ پیرالمپکس میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چاندی کا تمغہ جیت چکے ہیں۔

حیدر علی نے ریو ڈی جنیرو سے بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ بیجنگ کے مقابلے میں اس بار ریو کے پیرالمپکس میں مقابلہ بہت سخت تھا لیکن اصل مسئلہ وسائل اور سہولتوں کی دستیابی کا ہے۔حیدر علی نے کہا کہ وہ صرف چند روز کی ٹریننگ کے بعد ریو آئے ہیں، اگر انھیں ٹریننگ کا زیادہ وقت ملتا اور عام ایتھلیٹس کی طرح سہولتیں فراہم کی جاتیں تو وہ ریو میں طلائی تمغہ جیت سکتے تھے۔

(جاری ہے)

حیدر علی نے پاکستان اسپورٹس بورڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کو چاہیے کہ وہ پیرا (جسمانی طور پر معذور) ایتھلیٹس کی اہمیت کو بھی سمجھے اور انہیں ٹریننگ کی تمام تر سہولتیں فراہم کرے جو نارمل ایتھلیٹس کو فراہم کی جاتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان پیرالمپکس کمیٹی کو پاکستان سپورٹس بورڈ میں ٹریننگ کی سہولت حاصل کرنے کیلئے بورڈ کو باقاعدہ ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

حیدر علی نے کہا کہ حکومت بھی پیرالمپکس ایتھلیٹس کی بھرپور حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔انھوں نے کہا کہ بیجنگ پیرالمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتنے پر انھیں وفاقی وزیرکھیل نے ایک لاکھ روپے کا انعام دیا تھا تاہم اس کے بعد سے حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔حیدر علی نے کہا کہ وہ پاکستان کے واحد ایتھلیٹ ہیں جنھوں نے ریو پیرالمپکس کے لیے باقاعدہ کوالیفائی کیا اور جب پاکستان کا پرچم اولمپک سٹیڈیم میں لہرایا گیا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کیونکہ وہاں موجود کئی افراد کو اس سے پتہ چلا کہ پاکستان بھی کوئی ملک ہے اور اس کا کوئی ایتھلیٹ یہاں آیا ہے جس نے تمغہ جیتا ہے۔

حیدر علی نے کہا کہ وہ صرف چند روز کی ٹریننگ کے بعد ریو آئے ہیں، اگر انھیں ٹریننگ کا زیادہ وقت ملتا اور عام ایتھلیٹس کی طرح سہولتیں فراہم کی جاتیں تو وہ ریو میں طلائی تمغہ جیت سکتے تھے۔

وقت اشاعت : 15/09/2016 - 19:37:30